شہر کو آتش رنجش کے دھواں تک دیکھوں
شہر کو آتش رنجش کے دھواں تک دیکھوں مقتل زیست کو آخر میں کہاں تک دیکھوں پھر یہ مانوں گا خموشی پہ زوال آیا ہے دل دھڑکنے کی صدا جب میں زباں تک دیکھوں یہ تمنا ہے خدا عالم ہستی میں ترے میں عیاں دیکھنا چاہوں تو نہاں تک دیکھوں جب کہ اب رابطہ رکھنے کا بہت ہے امکاں پھر بھی ویرانیاں ...