Ayub Khawar

ایوب خاور

ایوب خاور کے تمام مواد

25 غزل (Ghazal)

    گھر دروازے سے دوری پر سات سمندر بیچ

    گھر دروازے سے دوری پر سات سمندر بیچ ایک انجانے دشمن کی ہے گھات سمندر بیچ پھر یہ ہارنے والی آنکھیں جاگیں اس دھوکے میں کوئی خواب بھنور میں آیا رات سمندر بیچ اب کیا اونچے بادبان پر خواب ستارہ چمکے آنکھیں رہ گئیں ساحل پر اور ہات سمندر بیچ اس موسم میں کون کہاں تک دیا جلائے ...

    مزید پڑھیے

    حریم حسن سے آنکھوں کے رابطے رکھنا

    حریم حسن سے آنکھوں کے رابطے رکھنا تمام عمر تحیر کے در کھلے رکھنا حصار آئینہ و خواب سے نکلنے تک شکست ذات کا منظر سنبھال کے رکھنا یہ بارگاہ محبت ہے میری خلوت ہے مرے حریف قدم احتیاط سے رکھنا فراز کوہ شب غم سے دیکھنا ہے اسے مرے خدا مری قسمت میں رت جگے رکھنا گرا دیا جسے اک بار اپنی ...

    مزید پڑھیے

    آ جائے نہ رات کشتیوں میں

    آ جائے نہ رات کشتیوں میں پھینکو نہ چراغ پانیوں میں اک چادر غم بدن پہ لے کر در در پھرا ہوں سردیوں میں دھاگوں کی طرح الجھ گیا ہے اک شخص مری برائیوں میں اس شخص سے یوں ملا ہوں جیسے گر جائے ندی سمندروں میں لوہار کی بھٹی ہے یہ دنیا بندے ہیں عذاب کی رتوں میں اب ان کے سرے کہاں ملیں ...

    مزید پڑھیے

    لہروں میں بدن اچھالتے ہیں

    لہروں میں بدن اچھالتے ہیں آؤ کہ فلک میں ڈوبتے ہیں دنیا کی ہزار نعمتوں میں ہم ایک تجھی کو جانتے ہیں آنکھوں سے دکھوں کے سارے منظر سارس کی اڑان اڑ گئے ہیں ہنستے ہوئے بے غبار چہرے بے وجہ اداس ہو رہے ہیں کچھ دکھ تو خوشی کے باب میں تھے باقی بھی نشان پا چکے ہیں یوں بھی ہے کہ پیار کے ...

    مزید پڑھیے

    اس قدر غم ہے کہ اظہار نہیں کر سکتے

    اس قدر غم ہے کہ اظہار نہیں کر سکتے یہ وہ دریا ہے جسے پار نہیں کر سکتے آپ چاہیں تو کریں درد کو دل سے مشروط ہم تو اس طرح کا بیوپار نہیں کر سکتے جان جاتی ہے تو جائے مگر اے دشمن جاں ہم کبھی تجھ پہ کوئی وار نہیں کر سکتے جتنی رسوائی ملی آپ کی نسبت سے ملی آپ اس بات سے انکار نہیں کر ...

    مزید پڑھیے

تمام

7 نظم (Nazm)

    روبرو جاناں

    ہمیں اب تک تری کچھ بھی نہ کہنے والی آنکھوں سے یہ شکوہ ہے جو کمسن خواب ان آنکھوں میں منظر کاڑھتے تھے وہ کبھی تیرے لبوں کے پھول بنتے اور ہمارے دامن اظہار میں کھلتے ہمیں ان مسکراتے چپ لبوں سے بھی شکایت ہے ہمارے شعر سن کر کھلکھلاتے تھے مگر کچھ بھی نہ کہتے تھے نہ جانے ایسے لمحوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اور ہو بھی تو رائیگاں ہے

    ہوائیں بھی بادباں بھی میرے سمندروں کے سکوت میں بے لباس نسلوں کے ریزہ ریزہ جمال کے سب نشاں بھی میرے مرے شکستہ وجود کی لہلہاتی فصلوں پہ گرنے والی شفیق شبنم میں ریت کے آسماں بھی میرے قدیم لفظوں کے غم میں بے جان منظروں کے جہاں بھی میرے ستارۂ دل کی وسعتوں میں کھلے ہوئے جنگلوں کے ...

    مزید پڑھیے

    ابھی موسم نہیں آیا

    ابھی تک موسم گل لوٹ کر آیا نہیں کچھ دیر باقی ہے ابھی اس درد کی چھاؤں میں سانسوں کو رواں رکھنے کا حیلہ ڈھونڈھنا ہے پاؤں میں مٹی کے جوتے ہاتھ میں کشکول جاں سر پر کلاہ غم قبائے گرد میں لپٹے بدن دیوار گریہ سے لگا کر بیٹھنا ہے اور اس موسم کا رستہ دیکھنا ہے جس کی خاطر ہم نے اپنی خاک کے ...

    مزید پڑھیے

    مداوا ہو نہیں سکتا

    مداوا ہو نہیں سکتا دل سادہ اب اس آتش نما کے سامنے عجز محبت کا اعادہ ہو نہیں سکتا یہ کیا کم ہے کہ اپنے آپ تک کو بھول کر اس حسن خود آگاہ کی خاطر نہ جانے کتنے روز و شب تھے جو ہم نے گنوائے تھے بہت سارے دنوں کی گٹھڑیاں تھیں جن کو کھولا تک نہ تھا ہم نے بس اک تہہ خانۂ عمر گذشتہ میں ہم ان سب ...

    مزید پڑھیے

    سینۂ خواب کھلے

    سینۂ خواب کھلے جس طرح پیار میں ڈوبی ہوئی آنکھوں پہ لرزتی ہوئی پلکوں کا نشہ کھلتا ہے جس طرح بند کتابوں پہ کسی پھول کے کھلنے کا گماں کھلتا ہے جس طرح ہاتھ کی پوروں پہ کبھی پہلے پہلے سے کسی تجربۂ لمس محبت کا اثر کھلتا ہے سینۂ خواب کھلے سینۂ خواب کھلے اور میں دیکھوں وہ کم آثار ...

    مزید پڑھیے

تمام