Ayub Khawar

ایوب خاور

ایوب خاور کی نظم

    روبرو جاناں

    ہمیں اب تک تری کچھ بھی نہ کہنے والی آنکھوں سے یہ شکوہ ہے جو کمسن خواب ان آنکھوں میں منظر کاڑھتے تھے وہ کبھی تیرے لبوں کے پھول بنتے اور ہمارے دامن اظہار میں کھلتے ہمیں ان مسکراتے چپ لبوں سے بھی شکایت ہے ہمارے شعر سن کر کھلکھلاتے تھے مگر کچھ بھی نہ کہتے تھے نہ جانے ایسے لمحوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اور ہو بھی تو رائیگاں ہے

    ہوائیں بھی بادباں بھی میرے سمندروں کے سکوت میں بے لباس نسلوں کے ریزہ ریزہ جمال کے سب نشاں بھی میرے مرے شکستہ وجود کی لہلہاتی فصلوں پہ گرنے والی شفیق شبنم میں ریت کے آسماں بھی میرے قدیم لفظوں کے غم میں بے جان منظروں کے جہاں بھی میرے ستارۂ دل کی وسعتوں میں کھلے ہوئے جنگلوں کے ...

    مزید پڑھیے

    ابھی موسم نہیں آیا

    ابھی تک موسم گل لوٹ کر آیا نہیں کچھ دیر باقی ہے ابھی اس درد کی چھاؤں میں سانسوں کو رواں رکھنے کا حیلہ ڈھونڈھنا ہے پاؤں میں مٹی کے جوتے ہاتھ میں کشکول جاں سر پر کلاہ غم قبائے گرد میں لپٹے بدن دیوار گریہ سے لگا کر بیٹھنا ہے اور اس موسم کا رستہ دیکھنا ہے جس کی خاطر ہم نے اپنی خاک کے ...

    مزید پڑھیے

    مداوا ہو نہیں سکتا

    مداوا ہو نہیں سکتا دل سادہ اب اس آتش نما کے سامنے عجز محبت کا اعادہ ہو نہیں سکتا یہ کیا کم ہے کہ اپنے آپ تک کو بھول کر اس حسن خود آگاہ کی خاطر نہ جانے کتنے روز و شب تھے جو ہم نے گنوائے تھے بہت سارے دنوں کی گٹھڑیاں تھیں جن کو کھولا تک نہ تھا ہم نے بس اک تہہ خانۂ عمر گذشتہ میں ہم ان سب ...

    مزید پڑھیے

    سینۂ خواب کھلے

    سینۂ خواب کھلے جس طرح پیار میں ڈوبی ہوئی آنکھوں پہ لرزتی ہوئی پلکوں کا نشہ کھلتا ہے جس طرح بند کتابوں پہ کسی پھول کے کھلنے کا گماں کھلتا ہے جس طرح ہاتھ کی پوروں پہ کبھی پہلے پہلے سے کسی تجربۂ لمس محبت کا اثر کھلتا ہے سینۂ خواب کھلے سینۂ خواب کھلے اور میں دیکھوں وہ کم آثار ...

    مزید پڑھیے

    محبت کا ایک سال

    اس اک سال میں کتنے سال گزاریں گے ہم ہر اک دن، اک سال مثال ہر اک دن کی صبح کا سورج حرف سوال ہر اک دن کی جھلسی ہوئی اور بھیگی ہوئی دوپہر زوال ہر اک دن کی، ہر اک شام شام جمال ہر اک شام کی رات کمال وصل کے ہر اک لمحے میں ہیں جیسے صدیاں گھلی ہوئی ہجر کے ہر لمحے میں جیسے ہلکی آنچ پہ ریت کی ...

    مزید پڑھیے

    اترن پہنو گے

    اترن پہنو‌ گے گھاٹ گھاٹ سے دھل کر آئی اترن پہنو گے جانے کس کس ذات کے لمس ہیں اس اترن کے بخیوں میں کس کس نسل کی دیمک اس کے دامن سے ہے لگی ہوئی کتنے رنگ ریزوں نے اس پر اپنے رنگ چڑھائے ہیں کتنی بار کی دھلی ہوئی جگہ جگہ سے چھدی ہوئی انجانے ہونٹوں کے نم سے دھاگا دھاگا لدی ہوئی سو سو طرح ...

    مزید پڑھیے