Atiiqullah

عتیق اللہ

ممتاز نقاد اور شاعر، دہلی یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر رہے

Prominent critic and poet, worked as professor of Urdu in Delhi University

عتیق اللہ کی غزل

    اندھیرا میرے باطن میں پڑا تھا

    اندھیرا میرے باطن میں پڑا تھا کوئی مجھ کو پکارے جا رہا تھا ہم اپنے آسمانوں میں کہیں تھے ہمارے پیچھے کوئی آ رہا تھا افق سنسان ہوتے جا رہے تھے سکوت وصل کا منظر بھی کیا تھا چمک کیسی بدن سے پھوٹ نکلی ہمارے ہاتھ میں کس کا سرا تھا سر لمس بدن جو لذتیں تھیں خطا کے بطن میں جو کیف سا ...

    مزید پڑھیے

    چراغ ہاتھوں کے بجھ رہے ہیں ستارہ ہر رہگزر میں رکھ دے

    چراغ ہاتھوں کے بجھ رہے ہیں ستارہ ہر رہگزر میں رکھ دے اتار دے چاند اس کے در پر سیاہ دن میرے گھر میں رکھ دے کہیں کہیں کوئی ربط مخفی عبارت منتشر میں رکھ دے گریز پر ہیں نشان سارے طرف بھی کوئی سفر میں رکھ دے طلب طلب آئنہ صفت ہے خراب و خستہ ہیں عکس سارے یہ نیکیاں بھی ہیں سر برہنہ لطافت ...

    مزید پڑھیے

    وہ میرے نالے کا شور ہی تھا شب سیہ کی نہایتوں میں

    وہ میرے نالے کا شور ہی تھا شب سیہ کی نہایتوں میں میں ایک ذرہ عنایتوں پر میں ایک گردش کثافتوں میں گرفت اور اس کی کر رہا ہوں جو آب ہے ان بصارتوں کی کمند اور اس پہ پھینکتا ہوں جو تہ نشیں ہے سماعتوں میں مرے لیے شہر کج میں رکھا ہی کیا ہے جو اپنے غم گنواؤں وہ ایک داماں بہت ہے مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    دے کر پچھلی یادوں کا انبار مجھے

    دے کر پچھلی یادوں کا انبار مجھے پھینک دیا ہے سات سمندر پار مجھے ہر منظر کے اندر بھی اک منظر ہے دیکھنے والا بھی تو ہو تیار مجھے تیری کمی گر مجھ سے پوری ہوتی ہے لے آئیں گے لوگ سر بازار مجھے ساری چیزیں غیر مناسب لگتی ہیں ہاتھ میں دے دی جائے اک تلوار مجھے اینٹیں جانے کب حرکت میں آ ...

    مزید پڑھیے

    بہت دنوں میں کہیں راستے بدلتے تھے

    بہت دنوں میں کہیں راستے بدلتے تھے وہ لوگ کیسے تھے جو ساتھ ساتھ چلتے تھے وہ کارگہ نہ رہی اور نہ وہ سفال رہی خدا کے دور میں کیا آدمی نکلتے تھے ذرا سے رزق میں برکت بھی کتنی ہوتی تھی اور اک چراغ سے کتنے چراغ جلتے تھے گزارنے کی وہ صورت قیام خواب میں تھی جہاں سے اور کئی راستے نکلتے ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی تنہائی کے احساس سے گھبراتا ہوں

    جب بھی تنہائی کے احساس سے گھبراتا ہوں میں ہر اک چیز میں تحلیل سا ہو جاتا ہوں میں کسی جسم پہ پھینکا ہوا پتھر تو نہ تھا بارہا اپنا لہو دیکھ کے شرماتا ہوں رات جو کچھ مجھے دیتی ہے سحر سے پہلے وقت کے گہرے سمندر میں اتار آتا ہوں دن کے ہنگامے جلا دیتے ہیں مجھ کو ورنہ صبح سے پہلے کئی ...

    مزید پڑھیے

    کیا تم نے کبھی زندگی کرتے ہوئے دیکھا

    کیا تم نے کبھی زندگی کرتے ہوئے دیکھا میں نے تو اسے بارہا مرتے ہوئے دیکھا پانی تھا مگر اپنے ہی دریا سے جدا تھا چڑھتے ہوئے دیکھا نہ اترتے ہوئے دیکھا تم نے تو فقط اس کی روایت ہی سنی ہے ہم نے وہ زمانہ بھی گزرتے ہوئے دیکھا یاد اس کے وہ گلنار سراپے نہیں آتے اس زخم سے اس زخم کو بھرتے ...

    مزید پڑھیے

    کیسۂ درویش میں جو بھی ہے زر اتنا ہی ہے

    کیسۂ درویش میں جو بھی ہے زر اتنا ہی ہے اور دیکھا جائے تو مجھ کو خطر اتنا ہی ہے پاؤں رکھنے کے لیے کوئی جگہ تو چاہیئے شہر کے اس باب میں میرا گزر اتنا ہی ہے میں جہاں پہنچا نہیں ایسے بھی ویرانے بتا دوست اپنا رشتۂ دیوار و در اتنا ہی ہے ایک مشت خاک یہ اور وہ ہوائے تند و تیز اور ترا ...

    مزید پڑھیے

    میں چھپا رہوں گا نگاہ و زخم کی اوٹ میں (ردیف .. ا)

    میں چھپا رہوں گا نگاہ و زخم کی اوٹ میں کسی اور شخص سے دل لگا کے بھی دیکھنا سر شاخ دل کوئی زخم ہے کہ گلاب ہے مری جاں کی رگ کے قریب آ کے بھی دیکھنا کوئی تارہ چپکے سے رکھنا اس کی ہتھیلی پر وہ اداس ہے تو اسے ہنسا کے بھی دیکھنا وہ جو شام تیری پلک پہ آ کے ٹھہر گئی مری روشنی کی حدوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اور دن ابھی اس جا قیام کرنا تھا

    کچھ اور دن ابھی اس جا قیام کرنا تھا یہاں چراغ وہاں پر ستارہ دھرنا تھا وہ رات نیند کی دہلیز پر تمام ہوئی ابھی تو خواب پہ اک اور خواب دھرنا تھا متاع چشم تمنا یہ اشک اور یہ خاک رگ خیال سے اس کو طلوع کرنا تھا نگاہ اور چراغ اور یہ اثاثۂ جاں تمام ہوتی ہوئی شب کے نام کرنا تھا گریز ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4