اندھیرا میرے باطن میں پڑا تھا
اندھیرا میرے باطن میں پڑا تھا کوئی مجھ کو پکارے جا رہا تھا ہم اپنے آسمانوں میں کہیں تھے ہمارے پیچھے کوئی آ رہا تھا افق سنسان ہوتے جا رہے تھے سکوت وصل کا منظر بھی کیا تھا چمک کیسی بدن سے پھوٹ نکلی ہمارے ہاتھ میں کس کا سرا تھا سر لمس بدن جو لذتیں تھیں خطا کے بطن میں جو کیف سا ...