Athar Nasik

اطہر ناسک

اطہر ناسک کی غزل

    پہنچا دیا امید کو طوفان یاس تک

    پہنچا دیا امید کو طوفان یاس تک بجھنے نہ دی فرات نے بچوں کی پیاس تک پہلے تو دسترس تھی شجر کے لباس تک لیکن خزاں نے نوچ لیا سب کا ماس تک چھڑکا گیا ہے زہر درختوں پہ اس قدر تلخی میں ڈھل گئی ہے پھلوں کی مٹھاس تک اس بار بھی لباس کو ترسیں گی چنّیاں یہ رونقیں ہیں چہروں پہ کھلتی کپاس ...

    مزید پڑھیے

    میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو نا ممکن ہے

    میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو نا ممکن ہے تو مری پہلی محبت ہے مرا محسن ہے میں اسے صبح نہ جانوں جو ترے سنگ نہیں میں اسے شام نہ مانوں کہ جو تیرے بن ہے کیسا منظر ہے ترے ہجر کے پس منظر کا ریگ صحرا ہے رواں اور ہوا ساکن ہے تیری آنکھوں سے ترے ہاتھوں سے لگتا تو نہیں میرے احباب یہ کہتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کبھار بھی کب سائباں کسی نے دیا

    کبھی کبھار بھی کب سائباں کسی نے دیا نہ ہاتھ سر پہ بجز آسماں کسی نے دیا نثار میں تری یادوں کی چھتریوں پہ نثار نہ اس طرح کا کبھی سائباں کسی نے دیا ہمارے پاؤں بھی اپنے نہیں ہیں اور سر بھی زمیں کہیں سے ملی آسماں کسی نے دیا بکا تھا کل بھی تو اک ذہن چند سکوں میں سند کسی کو ملی امتحاں ...

    مزید پڑھیے

    خود کو کسی کی راہگزر کس لیے کریں

    خود کو کسی کی راہگزر کس لیے کریں تو ہم سفر نہیں تو سفر کس لیے کریں جب تو نے ہی نگاہ میں رکھا نہیں ہمیں اب اور کسی کے ذہن میں گھر کس لیے کریں کیوں تجھ کو یاد کر کے گنوائیں حسین شام پلکوں کو تیرے نام پہ تر کس لیے کریں منسوب جاں ہو اور کوئی پیکر خیال کر سکتے ہیں یہ کام مگر کس لیے ...

    مزید پڑھیے

    سفر بھی جبر ہے ناچار کرنا پڑتا ہے

    سفر بھی جبر ہے ناچار کرنا پڑتا ہے عدو کو قافلہ سالار کرنا پڑتا ہے گلے میں ڈالنی پڑتی ہیں دھجیاں اپنی اور اپنی دھول کو دستار کرنا پڑتا ہے بنانا پڑتا ہے سوچوں میں اک محل اور پھر خود اپنے ہاتھ سے مسمار کرنا پڑتا ہے نجانے کون سی مجبوریاں ہیں جن کے لیے خود اپنی ذات سے انکار کرنا ...

    مزید پڑھیے

    گونگوں کو زبان کس نے دی ہے

    گونگوں کو زبان کس نے دی ہے آخر یہ اذان کس نے دی ہے رکھا ہے روا یہ ظلم کس نے ظالم کو امان کس نے دی ہے پھولوں کو اسیر کس نے رکھا خوشیوں کو اڑان کس نے دی ہے منشور ہوا لکھا ہے کس نے مٹی کو اٹھان کس نے دی ہے اس دشت میں جیت کس کی ٹھہری اس جنگ میں جان کس نے دی ہے مقروض ہوئی ہیں میری ...

    مزید پڑھیے

    اگر یقین نہ رکھتے گمان تو رکھتے

    اگر یقین نہ رکھتے گمان تو رکھتے ہم اپنے ہونے کا کوئی نشان تو رکھتے تمام دن جو کڑی دھوپ میں سلگتے ہیں یہ پیڑ سر پہ کوئی سائبان تو رکھتے ہماری بات سمجھ میں تو ان کی آ جاتی ہم اپنے ساتھ کوئی ترجمان تو رکھتے ہمیں سفر کا خسارہ پسند تھا ورنہ مسافرت کی تھکن سر پہ تان تو رکھتے مشاہدات ...

    مزید پڑھیے

    یہی جو تیرے مرے دل کی راجدھانی تھی

    یہی جو تیرے مرے دل کی راجدھانی تھی یہیں کہیں پہ تری اور مری کہانی تھی یہیں کہیں پہ عدو نے پڑاؤ ڈالا تھا یہیں کہیں پہ محبت نے ہار مانی تھی عجیب ساعت بے رنگ میں تو بچھڑا تھا کہ دل لہو تھا مرا اور نہ آنکھ پانی تھی مکاں بدلتے ہوئے ریزہ ریزہ کر ڈالے پرانے خواب تھے تصویر بھی پرانی ...

    مزید پڑھیے

    یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں

    یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں پھر اس کے بعد مجھے حرف حرف ہونا ہے تمہارے ہاتھ میں دیوان کچھ دنوں کا ہوں کسی بھی دن اسے سر سے اتار پھینکوں گا میں خود پہ بوجھ مری جان کچھ دنوں کا ہوں زمین زادے مری عمر کا حساب نہ کر اٹھا کے دیکھ لے میزان ...

    مزید پڑھیے

    یہی بہت ہے کہ احباب پوچھ لیتے ہیں

    یہی بہت ہے کہ احباب پوچھ لیتے ہیں مرے اجڑنے کے اسباب پوچھ لیتے ہیں میں پوچھ لیتا ہوں یاروں سے رت جگوں کا سبب مگر وہ مجھ سے مرے خواب پوچھ لیتے ہیں اسی گلی سے جہاں آفتاب ابھرا ہے کہاں گیا ہے وہ مہتاب، پوچھ لیتے ہیں اب آ گئے ہیں تو اس دشت کے فقیروں سے رموز منبر و محراب پوچھ لیتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2