Athar Nadir

اطہر نادر

اطہر نادر کی غزل

    وہ نہیں جانتا ہے جب کچھ بھی

    وہ نہیں جانتا ہے جب کچھ بھی اس سے کہنا ہے بے سبب کچھ بھی کون اپنا ہے کون بیگانہ ہم کو معلوم ہے یہ سب کچھ بھی بے غرض ہو کے سب سے ملتے ہیں ہم کہ رکھتے ہیں بے طلب کچھ بھی جب بھی ملتا ہے مسکراتا ہے خواہ اس کا ہو اب سبب کچھ بھی ہم بھی مل کر بچھڑ گئے اس سے بات ایسی نہیں عجب کچھ بھی آدمی ...

    مزید پڑھیے

    کرتا میں اب کسی سے کوئی التماس کیا

    کرتا میں اب کسی سے کوئی التماس کیا مرنے کا غم نہیں ہے تو جینے کی آس کیا جب تجھ کو مجھ سے دور ہی رہنا پسند ہے سائے کی طرح رہتا ہے پھر آس پاس کیا تجھ سے بچھڑ کے ہم تو یہی سوچتے رہے یہ گردش حیات نہ آئے گی راس کیا اب ترک دوستی ہی تقاضا ہے وقت کا تیرا قیاس گر ہے یہی تو قیاس کیا مانا کہ ...

    مزید پڑھیے

    غم کے ماروں کا ہے سہارا چاند

    غم کے ماروں کا ہے سہارا چاند کتنا اچھا ہے کتنا پیارا چاند زرد چہرہ ہے چاندنی پھیکی کہیں فرقت کا ہو نہ مارا چاند تو ہر اک کا ہے اور کسی کا نہیں لوگ کہتے رہیں ہمارا چاند ہم جہاں جائیں جس طرف جائیں ساتھ رہتا ہے یہ دل آرا چاند بڑھ گئی اور دل کی بیتابی جانے کیا کر گیا اشارا چاند ہم ...

    مزید پڑھیے

    کبھی سکوں تو کبھی اضطراب جیسا ہے

    کبھی سکوں تو کبھی اضطراب جیسا ہے اب اس کا ملنا ملانا بھی خواب جیسا ہے یہ تشنگئ محبت نہ بجھ سکے گی کبھی یہ مت کہو کہ یہ دریا سراب جیسا ہے غموں کی دھوپ میں امید کے بھی سائے ہوں تو زندگی میں یہی انقلاب جیسا ہے کبھی خیال سے باہر کبھی خیال میں ہے وہ ایک چہرہ جو دل میں گلاب جیسا ...

    مزید پڑھیے

    دل میں یوں چاہ کا ارماں نہ ہوا تھا سو ہوا

    دل میں یوں چاہ کا ارماں نہ ہوا تھا سو ہوا جس کی خاطر میں پریشاں نہ ہوا تھا سو ہوا وہ بھی کیا دن تھے کہ جب راحت جاں تھا کوئی وقت بھی مجھ سے گریزاں نہ ہوا تھا سو ہوا کس کو ہے تاب نگاہی ترا جلوہ دیکھے آئنہ خود بھی تو حیراں نہ ہوا تھا سو ہوا غم گساری کے لئے اب نہیں آتا ہے کوئی زخم بھر ...

    مزید پڑھیے

    رات آنگن میں چاند اترا تھا

    رات آنگن میں چاند اترا تھا تم ملے تھے کہ خواب دیکھا تھا اب کہ خود ہیں حصار ذات میں بند ورنہ اپنا بھی زور چلتا تھا شیشۂ دل پہ ایسی چوٹ پڑی ایک لمحے میں ریزہ ریزہ تھا اس کے کوچے کے ہو لیے ورنہ راستہ ہر طرف نکلتا تھا رت جو بدلی تو یہ بھی دیکھ لیا پتہ پتہ زمیں پہ بکھرا تھا ایک ...

    مزید پڑھیے

    کٹا نہ کوہ الم ہم سے کوہ کن کی طرح

    کٹا نہ کوہ الم ہم سے کوہ کن کی طرح بدل سکا نہ زمانہ ترے چلن کی طرح ہزار بار کیا خون آرزو ہم نے جبین دہر پہ پھر بھی رہے شکن کی طرح سواد شب کی یہ تنہائیاں بھی ڈستی ہیں یہ چاندنی بھی نظر آتی ہے کفن کی طرح تمام شہر ہے بیگانہ لوگ نا مانوس وطن میں اپنے ہیں ہم ایک بے وطن کی طرح خیال ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنی یاد دلا کے رلا دیا ہے مجھے

    خود اپنی یاد دلا کے رلا دیا ہے مجھے وہ ایک شخص کہ جس نے بھلا دیا ہے مجھے ترے کرم کا سزاوار میں رہا جب تک غم حیات نے بھی راستہ دیا ہے مجھے ہوائے شوق نے تیری تلاش میں اکثر مثال برگ شکستہ اڑا دیا ہے مجھے ذرا سی آنکھ لگی تھی جو اپنی آخر شب ہوائے صبح نے آ کر جگا دیا ہے مجھے چمن میں تو ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو معلوم ہے باتوں کی صداقت تیری

    ہم کو معلوم ہے باتوں کی صداقت تیری لوگ کیا کیا نہیں کرتے ہیں شکایت تیری ملکۂ حسن نہیں پھر بھی تو اے جان وفا اچھی لگتی ہے بہت ہی مجھے صورت تیری کوئی مشکل بھی ہو خاطر میں نہ لاتے تھے کبھی حوصلہ کتنا بڑھاتی تھی رفاقت تیری تو ہی بتلا کہ بھلا تجھ کو بھلائیں کیوں کر سامنے آنکھوں کے آ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2