Aslam Rashid

اسلم راشد

اسلم راشد کی غزل

    سوکھ جاتا ہے ہر شجر مجھ میں

    سوکھ جاتا ہے ہر شجر مجھ میں کچھ دعائیں ہیں بے اثر مجھ میں جانتا ہی نہیں ہوں میں اس کو وہ جو آنے لگا نظر مجھ میں دھوپ میں دیکھ کر پرندوں کو اگنے لگتا ہے اک شجر مجھ میں پاؤں اب پوچھنے لگے مجھ سے میں سفر میں ہوں یا سفر مجھ میں آئنہ دیکھ کر لگا مجھ کو میں نظر میں ہوں یا نظر مجھ ...

    مزید پڑھیے

    مسلسل دھوپ سے پالا پڑا ہے

    مسلسل دھوپ سے پالا پڑا ہے ہمارا جسم تب کالا پڑا ہے ہمارے جسم پہ کپڑے نئے ہیں ہماری روح پہ جالا پڑا ہے وو چابی لے گیا ہے ساتھ جس کی ہمارے دل پہ وہ تالا پڑا ہے

    مزید پڑھیے

    مجھے دریا بنانا چاہتی ہے

    مجھے دریا بنانا چاہتی ہے یہ دنیا ڈوب جانا چاہتی ہے ہماری نیند کی حسرت تو دیکھو تمہیں تکیہ بنانا چاہتی ہے تمہاری یاد صحرا کے سفر میں ہمارے ساتھ آنا چاہتی ہے ستارو کون اترا ہے زمیں پر نظر کیوں سر جھکانا چاہتی ہے سمندر سے کوئی اتنا تو پوچھے ندی کیوں سوکھ جانا چاہتی ہے ہماری ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ سے تارے ٹوٹ رہے ہیں

    آنکھ سے تارے ٹوٹ رہے ہیں خواب ہمارے ٹوٹ رہے ہیں ثابت ہیں آئینے لیکن عکس ہمارے ٹوٹ رہے ہیں سارے یار بچھڑ جائیں گے روز ستارے ٹوٹ رہے ہیں جگنو بن کر میں نے دیکھا کچھ اندھیارے ٹوٹ رہے ہیں ڈھونڈ رہا ہے دریا کس کو روز کنارے ٹوٹ رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    ہے معمہ یا کہانی عشق ہے

    ہے معمہ یا کہانی عشق ہے آئنے سے خود کلامی عشق ہے ہنستے ہنستے رو پڑے پھر ہنس دئے کیا یہی عادت پرانی عشق ہے اک تمنا نے جگایا تھا جنوں اس جنوں کی پاسبانی عشق ہے ذکر اس کا نامکمل ہے مگر خاموشی کی ترجمانی عشق ہے موت کے سب زاویے پڑھتی ہوئی ہم سبھی کی زندگانی عشق ہے اس کی جب شیریں ...

    مزید پڑھیے

    مرے قدموں میں دنیا کے خزانے ہیں اٹھا لوں کیا

    مرے قدموں میں دنیا کے خزانے ہیں اٹھا لوں کیا زمانہ گر چکا جتنا میں خود کو بھی گرا لوں کیا ترا چہرہ بنانے کی جسارت کر رہا ہوں میں لہو آنکھوں سے اترا ہے تو رنگوں میں ملا لوں کیا سنا ہے آج بستی سے مسافر بن کے گزرو گے اگر نکلو ادھر سے تو میں اپنا گھر سجا لوں کیا بھرا ہو دل حسد سے تو ...

    مزید پڑھیے

    اس کو کر کے سلام رنگ کھلے

    اس کو کر کے سلام رنگ کھلے دھیرے دھیرے تمام رنگ کھلے خشک ہونٹوں پے رکھ کے آئے ہنسی کر کے یہ انتظام رنگ کھلے اس کی تصویر کی بلائیں لیں کر کے یہ اہتمام رنگ کھلے دن گزارا تھا خشک آنکھوں سے در پے آئی جو شام رنگ کھلے چھین لی پہلے میری بینائی پورا کر انتقام رنگ کھلے چپ تھے وہ ذکر غیر ...

    مزید پڑھیے

    تیرا سورج آئے گا

    تیرا سورج آئے گا چھاؤں اٹھا لے جائے گا تجھ سے کوئی آئینہ کیسے آنکھ ملائے گا میرے گھر کا خالی پن تیرے ناز اٹھائے گا پلکوں پہ ٹھہرا آنسو میری یاد دلائے گا میری مٹی ساتھ میں رکھ پھول نہیں مرجھائے گا ہجر کسی بچے کی طرح پیچھے پیچھے آئے گا جاتے جاتے بولا وو زخم ابھی بھر جائے ...

    مزید پڑھیے

    جب اس کی تصویر بنائی جاتی ہے

    جب اس کی تصویر بنائی جاتی ہے سایہ سایہ دھوپ ملائی جاتی ہے پہلے اس کی آنکھیں سوچی جاتی ہیں پھر آنکھوں میں رات بتائی جاتی ہیں جس دریا میں عکس تمہارا دیکھا تھا اس دریا میں ناؤ چلائی جاتی ہے جس در سے ہم وابستہ ہیں اس در سے پانی کی بھی پیاس بجھائی جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    سن کر کتنی آنکھیں نکلیں

    سن کر کتنی آنکھیں نکلیں اک پتھر میں سانسیں نکلیں آنکھوں سے اک دریا نکلا دریا سے کچھ لاشیں نکلیں غم کے بھی کچھ پھول کھلے ہیں زخموں سے بھی شاخیں نکلیں آگے آگے ناخن آئے پیچھے پیچھے بانہیں نکلیں جس کو کھویا تھا آنکھوں نے اس کو لینے یادیں نکلیں کانٹوں نے کیوں جشن منایا پھولوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2