Aslam Habeeb

اسلم حبیب

اسلم حبیب کی غزل

    کٹ گئیں ساری پتنگیں ڈور سے

    کٹ گئیں ساری پتنگیں ڈور سے چلتی ہیں کیسے ہوائیں زور سے بے وفا سارے پرندے ہو گئے دوستی اپنی بھی تھی اک مور سے چند جذبے جنگ میں مشغول تھے رات بھر میں سو نہ پایا شور سے آخرش سورج اڑا کے لے گئے بھیک کب تک مانگتے ہم بھور سے اک نہ اک دن سرد جھونکے آئیں گے رابطہ رکھئے گھٹا گھنگھور ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی یاد کا سایا تھا یا کہ جھونکا تھا

    کسی کی یاد کا سایا تھا یا کہ جھونکا تھا مرے قریب سے ہو کر کوئی تو گزرا تھا عجب طلسم تھا اس شہر میں بھی اے لوگو پلک جھپکتے ہی اپنا جو تھا پرایا تھا مجھے خبر ہو جو اپنی تو تم کو لکھ بھیجوں ابھی تو ڈھونڈ رہا ہوں وہ گھر جو میرا تھا کسی نے مڑ کے نہ دیکھا کسی نے داد نہ دی لہولہان لبوں ...

    مزید پڑھیے

    نظر کا فکر کا فن کا ایاغ روشن کر

    نظر کا فکر کا فن کا ایاغ روشن کر چراغ بعد میں پہلے دماغ روشن کر زمانے بھر کے سبھی راز کھل ہی جائیں گے ابھی تو جادۂ دل کا سراغ روشن کر یہ شمعیں کام نہیں آتیں رزم گاہوں میں یہاں تو اپنے لہو کے چراغ روشن کر گھنے اندھیرے میں ڈوبی ہے کائنات تری زمیں پہ لا کے فلک کے چراغ روشن کر یہی ...

    مزید پڑھیے

    لٹی بہار کا سوکھا گلاب رہنے دو

    لٹی بہار کا سوکھا گلاب رہنے دو ہماری آنکھوں میں کوئی تو خواب رہنے دو نئے سرے سے چلو کوئی عہد کرتے ہیں وفا جفا کا پرانا حساب رہنے دو تمام عمر گزاری ہے ان دیاروں میں خلوص ہوگا یہاں دستیاب رہنے دو خمار اترا نہیں ہے ابھی تو اشکوں کا ابھی یہ ساغر و مینا شراب رہنے دو اٹھائے پھرتے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی گلاب یہاں پر کھلا کے دیکھتے ہیں

    کوئی گلاب یہاں پر کھلا کے دیکھتے ہیں چلو خرابۂ جاں کو سجا کے دیکھتے ہیں جہاں کو بھول کے تم کو بھلا کے دیکھتے ہیں اب اپنے آپ کو دل سے لگا کے دیکھتے ہیں بگڑ گئے تھے جسے سن کے وقت کے تیور جہاں کو بات وہی پھر سنا کے دیکھتے ہیں کبھی کسی کا بھی احساں نہیں لیا ہم نے اب اپنے سر پہ یہ ...

    مزید پڑھیے

    دوستی کو عام کرنا چاہتا ہے

    دوستی کو عام کرنا چاہتا ہے خود کو وہ نیلام کرنا چاہتا ہے بیچ آیا ہے گھٹا کے ہاتھ سورج دوپہر کو شام کرنا چاہتا ہے نوکری پہ بس نہیں جاں پہ تو ہوگا اب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے عمر بھر خود سے رہا ناراض لیکن دوسروں کو رام کرنا چاہتا ہے بیچتا ہے سچ بھرے بازار میں وہ زہر پی کر نام ...

    مزید پڑھیے

    زخموں کا بیوپاری ہے

    زخموں کا بیوپاری ہے اچھی ساہو کاری ہے بوجھل بوجھل پلکوں پر رات ابھی تک طاری ہے بس اک پتھر جھگی کا شیش محل پر بھاری ہے سانپ ڈسے اک عمر ہوئی نشہ اب تک طاری ہے چند کہیں یہ فیشن ہے چند کہیں بد کاری ہے امن عالم کی خاطر جنگ یگوں سے جاری ہے میں ہی اسلمؔ سچا ہوں جھوٹی دنیا ساری ہے

    مزید پڑھیے

    زیست کی دھوپ سے یوں بچ کے نکلتا کیوں ہے

    زیست کی دھوپ سے یوں بچ کے نکلتا کیوں ہے تو جو سورج ہے تو پھر سائے میں چلتا کیوں ہے تو جو پتھر ہے تو پھر پلکوں پہ آنسو کیسے تو سمندر ہے تو پھر آگ میں جلتا کیوں ہے میرے چہرے میں جو شائستہ نظر آتا ہے میری شریانوں میں وہ شخص ابلتا کیوں ہے کل تمہیں نے اسے یہ پیالہ دیا تھا یارو معترض ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ کو اشک بنا کے دیکھ

    آنکھ کو اشک بنا کے دیکھ پھر درشن کو جا کے دیکھ منزل کی قیمت مت پوچھ راہ میں دھکے کھا کے دیکھ پتھر بھی کھل اٹھیں گے ایک نظر مسکا کے دیکھ کعبہ کاشی دیکھ لئے میرے بھی گھر آ کے دیکھ دنیا میری مٹھی میں لوگوں کو بہکا کے دیکھ اندھیاروں کو جوت بنا خاموشی کو گا کے دیکھ کب تک پوجا ...

    مزید پڑھیے

    سبک سا درد تھا اٹھتا رہا جو زخموں سے

    سبک سا درد تھا اٹھتا رہا جو زخموں سے تو ہم بھی کرتے رہے چھیڑ چھاڑ اشکوں سے سبھی کو زخم تمنا دکھا کے دیکھ لیے خدا سے داد ملی اور نہ اس کے بندوں سے دھواں سا اٹھنے لگا فکر و فن کے ایواں میں لہو کی باس سی آنے لگی ہے شعروں سے اب ان سے دیکھیے کب منزلیں ہویدا ہوں اٹھا کے لایا ہوں کچھ نقش ...

    مزید پڑھیے