نظر کا فکر کا فن کا ایاغ روشن کر
نظر کا فکر کا فن کا ایاغ روشن کر
چراغ بعد میں پہلے دماغ روشن کر
زمانے بھر کے سبھی راز کھل ہی جائیں گے
ابھی تو جادۂ دل کا سراغ روشن کر
یہ شمعیں کام نہیں آتیں رزم گاہوں میں
یہاں تو اپنے لہو کے چراغ روشن کر
گھنے اندھیرے میں ڈوبی ہے کائنات تری
زمیں پہ لا کے فلک کے چراغ روشن کر
یہی تو زیست کا سرمایہ ہیں اجال انہیں
یہی ہیں عمر کا حاصل یہ داغ روشن کر