یادوں کا لمس ذہن کو چھو کر گزر گیا
یادوں کا لمس ذہن کو چھو کر گزر گیا نشتر سا میرے جسم میں جیسے اتر گیا موجوں کا شور مجھ کو ڈراتا رہا مگر پانی میں پاؤں رکھتے ہی دریا اتر گیا پیروں پہ ہر طرف ہی ہواؤں کا رقص تھا اب سوچتا ہوں آج وہ منظر کدھر گیا دو دن میں خال و خط مرے تبدیل ہو گئے آئینہ دیکھتے ہی میں اپنے سے ڈر ...