Asima Tahir

عاصمہ طاہر

پاکستانی کی نوجوان شاعرات میں نمایاں

Prominent among the women poets of Pakistan

عاصمہ طاہر کی غزل

    زخم کھا کے بھی مسکراتے ہیں

    زخم کھا کے بھی مسکراتے ہیں ہم ہیں پتھر بکھر نہ پاتے ہیں کوئی پہچان ہی نہ لے ہم کو رنگ میں شام ہم ملاتے ہیں خواب کا انتظار ختم ہوا آنکھ کو نیند سے جگاتے ہیں شام کے وقت ہجرتی پتے سبز پیڑوں کا غم مناتے ہیں عاصمہؔ روشنی بھرے الفاظ اپنے اندر ہی جھلملاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    خود میں دھونی رمائے بیٹھی ہوں

    خود میں دھونی رمائے بیٹھی ہوں آج خود کو بھلائے بیٹھی ہوں جانے والوں کا انتظار نہیں اپنے رستے میں آئے بیٹھی ہوں اس کی آنکھوں میں ہے طلسم کوئی اپنا چہرہ لٹائے بیٹھی ہوں چاند کو طیش آ رہا ہے کہ میں کیوں نظر کو ملائے بیٹھی ہوں پھول کھلتے ہیں مجھ میں شعروں کے ایک مصرعہ سمائے ...

    مزید پڑھیے

    انار کلی (ردیف .. ے)

    انار کلی تیرے مقبرے کے احاطے میں کس قدر شور و غل ہے میں جب بھی خود کو تنہا اداس پاتی ہوں اور دفتری چائے کافی سے دل بھرنے لگے اخبار بھی الماری کے کونے کی زینت بنے کوئی کتاب بھی میرا دل نہ بہلا سکے تو میں اپنے کمرے کی کھڑکی کھولے جہاں سے تیرا مقبرہ صاف دکھائی دیتا ہے تیرے بارے میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ سوچا ہی نہیں تھا تشنگی میں

    یہ سوچا ہی نہیں تھا تشنگی میں کہاں رکھوں گی لب میں بے بسی میں تمہاری سمت آنے کی طلب میں میں رکتی ہی نہیں ہوں بے خودی میں دل خوش فہم تجھ سے کتنے ہوں گے نثار اس کی تمنا کی گلی میں نہیں وہ اتنا بھی پاگل نہیں تھا جو مر جاتا مری وابستگی میں مجھے اب عاصمہؔ چلنا پڑے گا خود اپنے آپ ہی ...

    مزید پڑھیے

    صدیوں کو بے حال کیا تھا

    صدیوں کو بے حال کیا تھا اک لمحے نے سوال کیا تھا مٹی میں تصویریں بھر کے کوزہ گر نے کمال کیا تھا باہر بجتی شہنائی نے اندر کتنا نڈھال کیا تھا جرم فقط اتنا تھا میں نے اک رستے کو بحال کیا تھا خوشبو جیسی رات نے میرا اپنے جیسا حال کیا تھا ایک سنہرے ہجر نے مجھ سے کتنا سبز وصال کیا ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آنکھیں جو بند کر دیکھوں

    اپنی آنکھیں جو بند کر دیکھوں سبز خوابوں کا میں سفر دیکھوں ڈوبنے کی نہ تیرنے کی خبر عشق دریا میں بس اتر دیکھوں بعد اس کے نہیں خبر کیا ہے آئنے تک تو چشم تر دیکھوں دل میں بجتا ہوا دھڑکتا ہوا اپنی تنہائی کا گجر دیکھوں بین کرتی ہوئی بہاروں میں خود میں اک شور خیر و شر دیکھوں خواب ...

    مزید پڑھیے

    تیری یادیں بحال رکھتی ہے

    تیری یادیں بحال رکھتی ہے رات دل پر وبال رکھتی ہے شب غم کی یہ راگنی بن میں بانسری جیسی تال رکھتی ہے دل کی وادی سے اٹھنے والی کرن وحشتوں کو اجال رکھتی ہے بام و در پر اترنے والی دھوپ سبز رنگ ملال رکھتی ہے شام کھلتی ہے تیرے آنے سے لب پہ تیرا سوال رکھتی ہے ایک لڑکی اداس صفحوں ...

    مزید پڑھیے

    پو پھٹتے ہی ٹرین کی سیٹی جب کانوں میں گونجتی ہے

    پو پھٹتے ہی ٹرین کی سیٹی جب کانوں میں گونجتی ہے ثروت تیری یاد مرے دل کے خانوں میں گونجتی ہے شہزادی کے ہجر میں لکھے کچھ لفظوں کی حیرانی شہزادی کے گھر تک آتے مے خانوں میں گونجتی ہے شہزادی کے کانوں میں جو بات کہی تھی اک تو نے بعد ترے وہ بات ترے ہی افسانوں میں گونجتی ہے جان سے جانے ...

    مزید پڑھیے

    سنہری دھوپ سے چہرہ نکھار لیتی ہوں

    سنہری دھوپ سے چہرہ نکھار لیتی ہوں اداسیوں میں بھی خود کو سنوار لیتی ہوں مرے وجود کے اندر ہے اک قدیم مکان جہاں سے میں یہ اداسی ادھار لیتی ہوں کبھی کبھی مجھے خود پر یقیں نہیں ہوتا کبھی کبھی میں خدا کو پکار لیتی ہوں جنم جنم کی تھکاوٹ ہے میرے سینے میں جسے میں اپنے سخن میں اتار ...

    مزید پڑھیے

    اپنی حالت پہ آنسو بہانے لگے

    اپنی حالت پہ آنسو بہانے لگے سرد راتوں میں خود کو جگانے لگے سرخ تاروں کے ہم راہ کر کے سفر خواب زاروں سے کیوں آگے جانے لگے دور بجنے لگی ہے کہیں بانسری ہم بھی زندان میں گیت گانے لگے جو بصارت بصیرت سے محروم ہیں شہر کے آئنوں کو سجانے لگے ہم نے جب حال دل ان سے اپنا کہا وہ بھی قصہ کسی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2