Ashfaq Rehbar

اشفاق رہبر

اشفاق رہبر کی غزل

    غم تو تھا پھر بھی بے شمار نہ تھا

    غم تو تھا پھر بھی بے شمار نہ تھا نیزہ سینے کے آر پار نہ تھا میرے گرنے پہ کیوں ہے استعجاب میں تو ویسے بھی شہسوار نہ تھا وہ جو پھرتا تھا لے کے شیر کی کھال اس کا مارا ہوا شکار نہ تھا کیسے رشتے ہیں اس کی موت کے بعد خون خود اس کا سوگوار نہ تھا ہم بھی سیراب ہو چکے ہوتے مطلع بخت ابر بار ...

    مزید پڑھیے

    حادثے زیر و بم پیچ و خم راہ دیکھ

    حادثے زیر و بم پیچ و خم راہ دیکھ گاہ چل گاہ رک گاہ مڑ گاہ دیکھ طول فہرست حاجات کچھ رحم کر میری مشکل سمجھ میری تنخواہ دیکھ بزدلوں کی طرح چھپ کے حملہ نہ کر اپنے دشمن کو بھی کر کے آگاہ دیکھ جس کو آنا نہ ہو وہ نہیں آئے گا ایک دو دن نہیں چار چھ ماہ دیکھ اپنی اوقات کا جائزہ لے ذرا اس ...

    مزید پڑھیے

    جن لغزشوں کے دہر میں جھنڈے بلند ہیں

    جن لغزشوں کے دہر میں جھنڈے بلند ہیں ایوان زندگی کے وہی نقشبند ہیں بے سائیگی نے ہم کو بنایا ہے تیز گام ہم لوگ سوکھے پیڑوں کے احسان مند ہیں لفظوں کے قحط ہی کی نوازش کہیں اسے تابوت ذہن میں جو خیالات بند ہیں تو اپنا مال پہلے حریصوں میں بانٹ دے کیا ہے ہمارا ہم تو قناعت پسند ہیں اس ...

    مزید پڑھیے