غم تو تھا پھر بھی بے شمار نہ تھا

غم تو تھا پھر بھی بے شمار نہ تھا
نیزہ سینے کے آر پار نہ تھا


میرے گرنے پہ کیوں ہے استعجاب
میں تو ویسے بھی شہسوار نہ تھا


وہ جو پھرتا تھا لے کے شیر کی کھال
اس کا مارا ہوا شکار نہ تھا


کیسے رشتے ہیں اس کی موت کے بعد
خون خود اس کا سوگوار نہ تھا


ہم بھی سیراب ہو چکے ہوتے
مطلع بخت ابر بار نہ تھا


سخت جانی رہی بہانہ ہے
تیرا خنجر ہی آب دار نہ تھا


میں لدا تھا چلا وہ چل نہ سکا
اس پہ حالانکہ کوئی ہار نہ تھا