Ashfaq Rasheed Mansuri

اشفاق رشید منصوری

اشفاق رشید منصوری کی غزل

    تری نظر کے اشارہ بدل بھی سکتے ہیں

    تری نظر کے اشارہ بدل بھی سکتے ہیں میرے نصیب کے تارے بدل بھی سکتے ہیں میں اپنی ناؤ بھنور سے نکال لایہ ہوں مگر یہ ڈر ہے کنارے بدل بھی سکتے ہیں امیر شہر کی تقریر ہونے والی ہے سحر تلک یہ نظارے بدل بھی سکتے ہیں یہ دور وہ ہے کہ غیروں کا کیا کہیں صاحب ہمارے حق میں ہمارے بدل بھی سکتے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی غزلوں کو رسالوں سے الگ رکھتا ہوں

    اپنی غزلوں کو رسالوں سے الگ رکھتا ہوں یعنی یہ پھول کتابوں سے الگ رکھتا ہوں ہاں بزرگوں سے عقیدت تو مجھے ہے لیکن مشکلیں اپنی مزاروں سے الگ رکھتا ہوں منزلیں آ کے میرے پاؤں میں گر جاتی ہیں حوصلہ جب میں تھکانوں سے الگ رکھتا ہوں ان کی آمد کا پتہ دیتی ہے خوشبو ان کی اس گھڑی خود کو ...

    مزید پڑھیے

    دماغ و دل میں ہلچل ہو رہی ہے

    دماغ و دل میں ہلچل ہو رہی ہے ندی یادوں کی بے کل ہو رہی ہے تو اپنے فیس کو ڈھنک کر نکلنا نگر میں دھوپ پاگل ہو رہی ہے تمہاری یاد کا ڈاکہ پڑا ہے ہماری زیست چمبل ہو رہی ہے ابھی تو شوق سے پھاڑا ہے دامن ابھی تو بس ریہرسل ہو رہی ہے یاد آنکھوں پہ چشمہ گیر کا ہے مری تصویر اوجھل ہو رہی ہے

    مزید پڑھیے

    مری غزل گنگنا رہا تھا

    مری غزل گنگنا رہا تھا وہی جو مجھ سے خفا رہا تھا میرے خیالوں میں گم تھا شاید وہ اپنا کنگن گھما رہا تھا میں بادلوں کو ملا ملا کر اسی کا چہرہ بنا رہا تھا بنا تمہارے نہ جی سکیں گے وہ نیند میں بد بدا رہا تھا جو اس کی آنکھوں سے پی لی اک دن کئی دنوں تک نشہ رہا تھا

    مزید پڑھیے

    دنیا کو حادثوں میں گرفتار دیکھنا

    دنیا کو حادثوں میں گرفتار دیکھنا جب دیکھنا ہو دوستوں اخبار دیکھنا پھر اس کے بعد شوق سے بیعت کرو مگر پہلے امیر شہر کا کردار دیکھنا اس کی طرف ہے امن کا پرچم لگا ہوا لیکن مرا وہ خواب میں تلوار دیکھنا نسبت ہے ہم کو تین سو تیرہ سے آج ممکن نہیں کے ہم کو پڑے ہار دیکھنا وہ شخص کیا گیا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے دل میں آگ لگانی پڑتی ہے

    اپنے دل میں آگ لگانی پڑتی ہے ایسے بھی اب رات بتانی پڑتی ہے اس کی باتیں سن کر ایسے اٹھتا ہوں جیسے اپنی لاش اٹھانی پڑتی ہے وو خوابوں میں ہاتھ چھڑا کر جائے تو نیندوں میں آواز لگانی پڑتی ہے کیا خوشبو سے میں اس کی بچ پاؤں گا رستہ میں جو رات کی رانی پڑتی ہے اب جا کر کے بات سمجھ میں ...

    مزید پڑھیے

    حیرت ہے وہ خون کی باتیں کرتے ہیں

    حیرت ہے وہ خون کی باتیں کرتے ہیں جو اکثر قانون کی باتیں کرتے ہیں جن کی جیبیں اکثر خالی رہتی ہیں جانے کیوں قارون کی باتیں کرتے ہیں اپنی گلیوں کا بھی جن کو علم نہیں دیکھو وہ رنگون کی باتیں کرتے ہیں کب سے موسم سرد پڑا ہے ملنے کا اور وہ ہیں کہ جون کی باتیں کرتے ہیں دل کی دنیا بگ ...

    مزید پڑھیے

    زمیں پر نیم جاں یاری پڑی ہے

    زمیں پر نیم جاں یاری پڑی ہے ادھر خنجر ادھر عاری پڑی ہے میرے ہی سر پہ ہیں الزام سارے بڑی مہنگی وفا داری پڑی ہے عجب سا خوف پھیلا ہے وطن میں ہوا کے ہاتھ چنگاری پڑی ہے بچھڑ کر ہو گیا برباد وہ بھی ہمیں بھی چوٹ یہ کاری پڑی ہے سمندر سے کوئی رشتہ ہے اس کا ندی کس واسطے کھاری پڑی ہے

    مزید پڑھیے