Ashar Najmi

اشعر نجمی

شاعر اور ادیب، معروف ادبی رسالے’اثبات‘ کے مدیر

Poet and author, editor of well-known literary journal 'Isbaat'

اشعر نجمی کی غزل

    اندھیرے میں تجسس کا تقاضا چھوڑ جانا ہے

    اندھیرے میں تجسس کا تقاضا چھوڑ جانا ہے کسی دن خامشی میں خود کو تنہا چھوڑ جانا ہے سمندر ہے مگر وہ چاہتا ہے ڈوبنا مجھ میں مجھے بھی اس کی خاطر یہ کنارہ چھوڑ جانا ہے بہت خوش ہوں میں ساحل پر چمکتی سیپیاں چن کر مگر مجھ کو تو اک دن یہ خزانہ چھوڑ جانا ہے طلوع صبح کی آہٹ سے لشکر جاگ جائے ...

    مزید پڑھیے

    رفتہ رفتہ ختم قصہ ہو گیا ہونا ہی تھا

    رفتہ رفتہ ختم قصہ ہو گیا ہونا ہی تھا وہ بھی آخر میرے جیسا ہو گیا ہونا ہی تھا دشت امکاں میں یہ میرا مشغلہ بھی خوب ہے روزن دیوار چہرہ ہو گیا ہونا ہی تھا ڈوبتا سورج تمہاری یاد واپس کر گیا شام آئی زخم تازہ ہو گیا ہونا ہی تھا عہد ضبط غم پہ قائم تھا دم رخصت مگر وہ سکوت جاں بھی دریا ہو ...

    مزید پڑھیے

    سکوت شب کے ہاتھوں سونپ کر واپس بلاتا ہے

    سکوت شب کے ہاتھوں سونپ کر واپس بلاتا ہے مری آوارگی کو میرا گھر واپس بلاتا ہے میں جب بھی دائروں کو توڑ کر باہر نکلتا ہوں ہوا کے ناتواں جھونکے کا ڈر واپس بلاتا ہے اسی کے حکم پر اس کو میں تنہا چھوڑ آیا تھا خدا جانے مجھے وہ کیوں مگر واپس بلاتا ہے اشارے کر رہا ہے دوریوں کا کھولتا ...

    مزید پڑھیے

    یہاں تو ہر گھڑی کوہ ندا کی زد میں رہتے ہیں

    یہاں تو ہر گھڑی کوہ ندا کی زد میں رہتے ہیں تجاوز کے بھی موسم میں ہم اپنی حد میں رہتے ہیں بہت محتاط ہو کر سانس لینا معتبر ہو تم ہمارا کیا ہے ہم تو خود ہی اپنی رد میں رہتے ہیں سراب و آب کی یہ کشمکش بھی ختم ہی سمجھو چلو موج صدا بن کر کسی گنبد میں رہتے ہیں سروں کے بوجھ کو شانوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    انکشاف ذات کے آگے دھواں ہے اور بس

    انکشاف ذات کے آگے دھواں ہے اور بس ایک تو ہے ایک میں ہوں آسماں ہے اور بس آئینہ خانوں میں رقصندہ رموز آگہی اوس میں بھیگا ہوا میرا گماں ہے اور بس کینوس پر ہے یہ کس کا پیکر حرف و صدا اک نمود آرزو جو بے نشاں ہے اور بس حیرتوں کی سب سے پہلی صف میں خود میں بھی تو ہوں جانے کیوں ہر ایک منظر ...

    مزید پڑھیے

    تیرے بدن کی دھوپ سے محروم کب ہوا

    تیرے بدن کی دھوپ سے محروم کب ہوا لیکن یہ استعارہ بھی منظوم کب ہوا واقف کہاں تھے رات کی سرگوشیوں سے ہم بستر کی سلوٹوں سے بھی معلوم کب ہوا شاخ بدن سے سارے پرندے تو اڑ گئے سجدہ ترے خیال کا مقسوم کب ہوا سنسان جنگلوں میں ہے موجودگی کی لو لیکن وہ ایک راستہ معدوم کب ہوا نسبت مجھے ...

    مزید پڑھیے

    مسئلہ یہ تو نہیں کہ سن رسیدہ کون تھا

    مسئلہ یہ تو نہیں کہ سن رسیدہ کون تھا ہاں مگر محفل میں تیری برگزیدہ کون تھا فیصلہ جس کا بھی تھا تیرا نہیں میرا سہی وقت رخصت سر جھکائے آبدیدہ کون تھا ایک قطرے کی طلب اور تھا سمندر سامنے بزم یاراں میں بھلا وہ بد عقیدہ کون تھا تم بھی تھے سرشار میں بھی غرق بحر رنگ و بو پھر بھلا ...

    مزید پڑھیے

    اس سفر میں نیم جاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

    اس سفر میں نیم جاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں اور زیر سائباں میں بھی نہیں تو بھی نہیں زہر میں ڈوبی ہوئی پرچھائیوں کا رقص ہے خود سے وابستہ یہاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں ناتمامی کے شرر میں روز و شب جلتے رہے سچ تو یہ ہے بے زباں میں بھی نہیں تو بھی نہیں زرد لفظوں کے دھندلکے شام کی ...

    مزید پڑھیے

    شاید مری نگاہ میں کوئی شگاف تھا

    شاید مری نگاہ میں کوئی شگاف تھا ورنہ اداس رات کا چہرہ تو صاف تھا اک لاش تیرتی رہی برفیلی جھیل میں جھوٹی تسلیوں کا امیں زیر ناف تھا بوسوں کی راکھ میں تھے سلگتے شرار لمس چہرے کی سلوٹوں میں کوئی انکشاف تھا دوزخ کے گرد گونگے فرشتے تھے محو رقص اور پسلیوں کی ٹیس پہ میلا غلاف ...

    مزید پڑھیے

    ہم تہ دریا طلسمی بستیاں گنتے رہے

    ہم تہ دریا طلسمی بستیاں گنتے رہے اور ساحل پر مچھیرے مچھلیاں گنتے رہے ناتواں شانوں پہ ایسی خامشی کا بوجھ تھا اپنے اس کے درمیاں بھی سیڑھیاں گنتے رہے بزم جاں سے چپکے چپکے خواب سب رخصت ہوئے ہم بھلا کرتے بھی کیا بس گنتیاں گنتے رہے بانس کے جنگل سے ہو کے جب کبھی گزری ہوا اک صدائے گم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2