ارشد جمال صارم کی غزل

    کشت احساس میں تھوڑا سا ملا لیں گے تجھے

    کشت احساس میں تھوڑا سا ملا لیں گے تجھے پھر نئی پود کی صورت میں اگا لیں گے تجھے کیا خبر کام کا لمحہ کوئی ہاتھ آ جائے کاسۂ وقت کسی روز کھنگالیں گے تجھے اک فقط تیری توجہ سے ترے پیار تلک رفتہ رفتہ ہی سہی اپنا بنا لیں گے تجھے سرحد وقت کے اس پار تو جانے دے مجھے اے غم یار! وہاں پر بھی ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہوں کتنا فزوں ہے تیرے دیوانے کا دکھ

    کیا کہوں کتنا فزوں ہے تیرے دیوانے کا دکھ اک طرف جانے کا غم ہے اک طرف آنے کا دکھ ہے عجب بے رنگیٔ احوال مجھ میں موجزن نے ہی جینے کی طلب ہے نے ہی مر جانے کا دکھ توڑ ڈالا تھا سبھی کو درد کے آزار نے سہہ نہ پایا تھا کوئی کردار افسانے کا دکھ خون رو اٹھتی ہیں سب آنکھیں نگار صبح کی بانٹتی ...

    مزید پڑھیے

    کہاں کہاں سے سناؤں تمہیں فسانۂ شب

    کہاں کہاں سے سناؤں تمہیں فسانۂ شب طویل گزرا ہے مجھ پر بہت زمانۂ شب مہک رہا ہے ہمیں سے حریم گلشن روز ہمیں سے نور فزا ہے نگار خانۂ شب ہوا ہے حکم یہ منجانب شہ ظلمات حدود شہر سیہ چھوڑ دے دوانۂ شب خموش ہوتے ہیں دن کے تمام تر سکے کھنکتا رہتا ہے کشکول دل میں آنۂ شب ہر ایک شاخ پہ ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہوں کتنی اذیت سے نکالی گئی شب

    کیا کہوں کتنی اذیت سے نکالی گئی شب ہاں یہی شب یہ مری ہجر بنا لی گئی شب پہلے ظلمت کا پرستار بنایا گیا میں اور پھر میری نگاہوں سے اٹھا لی گئی شب رات بھر فتح وہ کرتی رہی اجیاروں کو صبح دم اپنے اندھیروں سے بھی خالی گئی شب تا سدا مجھ میں رہیں چاند ستارے روشن میری مٹی میں طبیعت سے ملا ...

    مزید پڑھیے

    دو چار ستارے ہی مری آنکھ میں دھر جا

    دو چار ستارے ہی مری آنکھ میں دھر جا کچھ دیر تو اے ساعت شب مجھ میں ٹھہر جا اب اور سنبھالی نہیں جاتی تری حرمت یوں کر غم جاناں میری نظروں سے اتر جا تا عمر ترا نقش فروزاں رہے مجھ میں اک زخم کی صورت مرے ماتھے پہ ابھر جا چھوڑ آنا وہیں پر ذرا آوارہ مزاجی صحرا کی طرف اے دل نادان اگر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2