ارشد جمال صارم کی غزل

    اضطراب ایسا ہوا دل کا سہارا مجھ کو

    اضطراب ایسا ہوا دل کا سہارا مجھ کو کوئی ٹھہراؤ نہیں خود میں گوارا مجھ کو سر اٹھاتی ہے وہ تجدید کی خواہش مجھ میں نقش گر سوچنے لگتا ہے دوبارہ مجھ کو میں تہی دست کھڑا تھا سر صحرائے حیات آرزو نے تری یک لخت پکارا مجھ کو جا پہنچنا کسی رفعت کو نہیں ہے دشوار ہاں! ٹھہرنے کا وہاں چاہئے ...

    مزید پڑھیے

    نت نئے نقش سے باطن کو سجاتا ہوا میں

    نت نئے نقش سے باطن کو سجاتا ہوا میں اپنے ظاہر کے خد و خال مٹاتا ہوا میں لحظہ لحظہ یہ فدا ہوتی ہوئی مجھ پہ حیات اور ہر آن نظر اس سے چراتا ہوا میں جانے کس رت میں کھلیں گے یہاں تعبیر کے پھول سوچتا رہتا ہوں اب خواب اگاتا ہوا میں ہر گھڑی بڑھتی ہوئی تشنہ لبی عشق تری! دل کے رستے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    فنا ہوا تو میں تار نفس میں لوٹ آیا

    فنا ہوا تو میں تار نفس میں لوٹ آیا خوشا کہ عشق تری دسترس میں لوٹ آیا نہ جانے اس نے کھلے آسماں میں کیا دیکھا پرندہ پھر سے جہان قفس میں لوٹ آیا کسی کے جبر میں کتنا تھا اختیار مجھے برا کیا کہ جو میں اپنے بس میں لوٹ آیا یہ حاشیے ترے گمراہ کر رہے تھے مجھے کتاب زیست سو میں تیرے نص میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ خاکی پیرہن اک اسم کی بندش میں رہتا ہے

    یہ خاکی پیرہن اک اسم کی بندش میں رہتا ہے زمانہ ہر گھڑی ورنہ نئی سازش میں رہتا ہے اسی باعث میں اپنا نصف رکھتا ہوں اندھیرے میں مرے اطراف بھی سورج کوئی گردش میں رہتا ہے میں اک پرکار سا سیار بھی ہوں اور ثابت بھی جہاں سارا مرے قدموں کی پیمائش میں رہتا ہے مری آنکھوں میں اب ہے موجزن ...

    مزید پڑھیے

    جڑے ہوئے ہیں پری خانے میرے کاغذ سے

    جڑے ہوئے ہیں پری خانے میرے کاغذ سے جو اٹھ رہے ہیں یہ افسانے میرے کاغذ سے کترتا رہتا ہے مقراض چشم سے مجھ کو بنانا کیا ہے اسے جانے میرے کاغذ سے قلم نے نوک الم کیا رکھی بہ چشم دل چھلکنے لگ گئے پیمانے میرے کاغذ سے رقم کروں بھی تو کیسے میں داستان وفا حروف پھرتے ہیں بیگانے میرے کاغذ ...

    مزید پڑھیے

    پلٹ کر دیکھنے کا مجھ میں یارا ہی نہیں تھا

    پلٹ کر دیکھنے کا مجھ میں یارا ہی نہیں تھا نہیں ایسا کہ پھر اس نے پکارا ہی نہیں تھا سمندر کی ہر اک شے پر ہماری دسترس تھی کہ طغیانی بھی اپنی تھی کنارہ ہی نہیں تھا وہ اک لمحہ سزا کاٹی گئی تھی جس کی خاطر وہ لمحہ تو ابھی ہم نے گزارہ ہی نہیں تھا وہ بن کر چاند تب اترا تھا اس دل کی زمیں ...

    مزید پڑھیے

    بے اماں ہوں ان دنوں میں در بدر پھرتا ہوں میں

    بے اماں ہوں ان دنوں میں در بدر پھرتا ہوں میں میں مودت ہوں وفا ہوں خیر کا جذبہ ہوں میں دل کی موجوں میں بپا کر کے تلاطم خیزیاں اپنے اندر کی زمینیں کاٹتا رہتا ہوں میں کھیل ہے سرکش ہواؤں کے لئے میرا وجود کم طنابی جس کی قسمت ہے وہ اک خیمہ ہوں میں ہے مکمل وقت کے سورج پہ میرا ...

    مزید پڑھیے

    بس کہ اک لمس کی امید پہ وارے ہوئے ہیں

    بس کہ اک لمس کی امید پہ وارے ہوئے ہیں سو ترے سامنے یہ خاک پسارے ہوئے ہیں جانے کب ان کو بجھا بیٹھے کوئی باد الم سر مژگان تمنا جو ستارے ہوئے ہیں زندگی تو بھی ہمیں ویسے ہی اک روز گزار جس طرح ہم تجھے برسوں سے گزارے ہوئے ہیں نت نئے نقش کریں اس پہ اذیت کے رقم آ کہ ہم تختیٔ دل اپنی ...

    مزید پڑھیے

    پیاس ہر ذرۂ صحرا کی بجھائی گئی ہے

    پیاس ہر ذرۂ صحرا کی بجھائی گئی ہے تب کہیں جا کے مری آبلہ پائی گئی ہے قید میں رکھی گئی ہے کہیں تتلی کوئی کوئی خوشبو کہیں بازار میں لائی گئی ہے کیا بھلا اپنی سماعت میں گھلے کوئی مٹھاس وقت کے ہونٹوں سے کب تلخ نوائی گئی ہے کس کی تنویر سے جل اٹھے بصیرت کے چراغ کس کی تصویر یہ آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    دکھاتی ہے جو یہ دنیا وہ بیٹھا دیکھتا ہوں میں

    دکھاتی ہے جو یہ دنیا وہ بیٹھا دیکھتا ہوں میں ہے تف مجھ پر تماشہ بین ہو کر رہ گیا ہوں میں بس اتنا ربط کافی ہے مجھے اے بھولنے والے تری سوئی ہوئی آنکھوں میں اکثر جاگتا ہوں میں نہ کیوں ہوگی مری بار آوری پھر دیکھنے لائق محبت کی مہکتی خاک میں بویا گیا ہوں میں مری آبادیوں میں چار سو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2