Arif Shafiq

عارف شفیق

عارف شفیق کی غزل

    اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل

    اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل یہ زندگی بھی خواب ہے تو خواب سے نکل سورج سے اپنے بچھڑی ہوئی اک کرن ہے تو تیرا نصیب جسم کے برفاب سے نکل تو مٹی پانی آگ ہوا میں ہے قید کیوں ہونے کا دے جواز تب و تاب سے نکل پھولوں میں چاند تاروں میں سورج میں اس کو دیکھ ان پتھروں کے منبر و محراب سے ...

    مزید پڑھیے

    تو زمیں پر ہے کہکشاں جیسا

    تو زمیں پر ہے کہکشاں جیسا میں کسی قبر کے نشاں جیسا میں نے ہر حال میں کیا ہے شکر اس نے رکھا مجھے جہاں جیسا ہو گئی وہ بہن بھی اب رخصت پیار جس نے دیا تھا ماں جیسا فاصلہ کیوں دلوں میں آیا ہے گھر کے آنگن کے درمیاں جیسا میرے دل کو ملا نہ لفظ کوئی میرے اشکوں کے ترجماں جیسا میرے اک شعر ...

    مزید پڑھیے

    بادباں کو گلہ ہواؤں سے

    بادباں کو گلہ ہواؤں سے اور مجھ کو ہے ناخداؤں سے دشمنوں سے بھی اب نہیں لڑتا پہلے لڑتا تھا میں ہواؤں سے گاؤں میں لگ رہا ہے پھر میلا بچے بچھڑیں گے کتنے ماؤں سے لوگ محنت کے بیچ بوئیں گے جب بھی فرصت ملی دعاؤں سے حبس سے بجھ گیا دیا گھر کا میں بچاتا رہا ہواؤں سے میرے کھیتوں کو اس ...

    مزید پڑھیے

    دوزخ بھی کیا گمان ہے جنت بھی ہے فریب

    دوزخ بھی کیا گمان ہے جنت بھی ہے فریب ان وسوسوں میں میری عبادت بھی ہے فریب دریا و دشت اور سمندر بھی ہیں سراب دن کا اجالا رات کی ظلمت بھی ہے فریب تیرا ہر اک خیال بھی اک خوشنما گمان دنیا ہی کیا خود اپنی حقیقت بھی ہے فریب پرچھائیں کے سوا تو نہیں ہیں ہم اور کچھ یہ رنگ و نور اور یہ ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے چیخیں اٹھ رہی تھیں اور میں جاگا نہ تھا

    گھر سے چیخیں اٹھ رہی تھیں اور میں جاگا نہ تھا اتنی گہری نیند تو پہلے کبھی سویا نہ تھا نشۂ آوارگی جب کم ہوا تو یہ کھلا کوئی بھی رستہ مرے گھر کی طرف جاتا نہ تھا کیا گلہ اک دوسرے سے بے وفائی کا کریں ہم نے ہی اک دوسرے کو ٹھیک سے سمجھا نہ تھا گل نہ تھے جس میں وہ گلشن بھی تھا جنگل کی ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا

    جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا میں نے اپنے لہجے کو تلوار کیا میں نے اپنے پھول سے بچوں کی خاطر کاغذ کے پھولوں کا کاروبار کیا میری محنت کی قیمت کیا دے گا تو میں نے دشت و صحرا کو گلزار کیا میں فرہادؔ یا مجنوں کیسے بن جاتا میں شاعر تھا میں نے سب سے پیار کیا اس کی آنکھیں خواب سے ...

    مزید پڑھیے

    جو جستجو کروں ہر راز پا بھی سکتا ہوں

    جو جستجو کروں ہر راز پا بھی سکتا ہوں میں کائنات سے پردہ اٹھا بھی سکتا ہوں مرے بزرگوں نے بخشی ہے اک دعا ایسی بچھڑ گئے ہیں جو ان کو ملا بھی سکتا ہوں نہ کوئی زائچہ کھینچوں نہ دیکھوں ہاتھ ترا میں تیرے بارے میں سب کچھ بتا بھی سکتا ہوں بس ایک رات میں سجدے میں گر کے رویا تھا اب آسماں ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں نزدیک کب دل کی محبت کھینچ لاتی ہے

    ہمیں نزدیک کب دل کی محبت کھینچ لاتی ہے تجھے تیری مجھے میری ضرورت کھینچ لاتی ہے چھپا ہے جو خزانہ تہہ میں ان بنجر زمینوں کی اسے باہر زمیں سے میری محنت کھینچ لاتی ہے میں ماضی کو بھلا کر اپنے مستقبل میں زندہ ہوں نگاہوں سے ہے جو اوجھل بشارت کھینچ لاتی ہے مرا دشمن مری آنکھوں سے ...

    مزید پڑھیے

    جو اپنی خواہشوں میں تو نے کچھ کمی کر لی

    جو اپنی خواہشوں میں تو نے کچھ کمی کر لی تو پھر یہ جان کہ تو نے پیمبری کر لی تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر ترے بغیر بسر میں نے زندگی کر لی پہنچ گیا ہوں میں منزل پہ گردش دوراں ٹھہر بھی جا کہ بہت تو نے رہبری کر لی جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی مرے کسانوں نے شہروں ...

    مزید پڑھیے

    کیسا ماتم کیسا رونا مٹی کا

    کیسا ماتم کیسا رونا مٹی کا ٹوٹ گیا ہے ایک کھلونا مٹی کا اتروں گا آفاق سے جب میں دھرتی پر بھر لوں گا دامن میں سونا مٹی کا اک دن مٹی اوڑھ کے مجھ کو سونا ہے کیا غم جو ہے آج بچھونا مٹی کا اونچا اڑنے کی خواہش میں تم عارفؔ ماؤں جیسا پیار نہ کھونا مٹی کا

    مزید پڑھیے