جو جستجو کروں ہر راز پا بھی سکتا ہوں

جو جستجو کروں ہر راز پا بھی سکتا ہوں
میں کائنات سے پردہ اٹھا بھی سکتا ہوں


مرے بزرگوں نے بخشی ہے اک دعا ایسی
بچھڑ گئے ہیں جو ان کو ملا بھی سکتا ہوں


نہ کوئی زائچہ کھینچوں نہ دیکھوں ہاتھ ترا
میں تیرے بارے میں سب کچھ بتا بھی سکتا ہوں


بس ایک رات میں سجدے میں گر کے رویا تھا
اب آسماں کو زمیں پر جھکا بھی سکتا ہوں


ابھی تو سوچ سفر ہے ازل کی سمت مگر
پلٹ کے سوئے ابد پھر سے جا بھی سکتا ہوں


مجھے خدا نے وہ بخشا ہے شاعری کا ہنر
جو خواب دیکھتا ہوں وہ دکھا بھی سکتا ہوں


یہ مانتا ہوں کہ عارف ہوں کربلا سے دور
مگر میں حر کی طرح سر کٹا بھی سکتا ہوں