اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل
اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل یہ زندگی بھی خواب ہے تو خواب سے نکل سورج سے اپنے بچھڑی ہوئی اک کرن ہے تو تیرا نصیب جسم کے برفاب سے نکل تو مٹی پانی آگ ہوا میں ہے قید کیوں ہونے کا دے جواز تب و تاب سے نکل پھولوں میں چاند تاروں میں سورج میں اس کو دیکھ ان پتھروں کے منبر و محراب سے ...