گلدان

سالہا سال بیابان گماں کو سینچا
خون ادراک سے آب جاں سے
تب کہیں اس میں ہویدا ہوئے افکار کے پھول
پھول جن کو مرے بیٹے تری فرحت کے لئے
شیشۂ روح کے گل داں میں سجا لایا ہوں
اور چپکے سے یہ گل داں میں نے
رکھ دیا ہے تری پڑھنے کی نئی میز پہ یوں
جیسے اس میز کی تکمیل تھی اس کی محتاج
اور سمجھتا ہوں کہ ان پھولوں کی نادیدہ حسیں خوشبو سے
تیرے کمرے کی ہر اک چیز مہک اٹھی ہے
کون جانے کہ مری سوچ مرے زعم کی گلکاری ہو
فکر کی شعبدہ بازی ہو تصور کی طلب گاری ہو
اور تو سیٹی بجاتا ہوا کمرے میں ہو داخل تو تجھے
اجنبی باس کا کرب
یک بیک سانس کے رکنے کی اذیت سے ہم آغوش کرے
اور جھنجھلا کے تو گل داں کو دریچے سے پرے
پھینک دے جادۂ سنگیں کی طرف
پس دیوار کھڑا
میں سنوں ٹوٹتے گل داں کی صدا
اور مرے کانپتے ہونٹوں سے اٹھے
تیرے احساس کی برنائی کے بے ٹوک پنپنے کی دعا