Anwar Sabri

انور صابری

عالم ،دانشور،مجاہد آزادی اورخطیب،اپنی شاعری میں مستانہ روی اور صوفیانہ رنگ کے لیے معروف

A multi-faceted personality who was apart from being a religious scholar and freedom fighter had also been a poet reflecting Sufistic bohimianism

انور صابری کی غزل

    دور حاضر ہو گیا ہے اس قدر کم آشنا

    دور حاضر ہو گیا ہے اس قدر کم آشنا آشنا ہمدم ہے کوئی اب نہ ہمدم آشنا آہ کس منزل پہ پہنچی ہیں مری تنہائیاں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا مجھے غم آشنا مختصر یہ ہے مرے قلب و نظر کی داستاں آشنائے درد دل ہے آنکھ ہے نم آشنا اللہ اللہ یہ فضائے دشمن مہر و وفا آشنا کے نام سے ہوتا ہے برہم ...

    مزید پڑھیے

    رہتے ہوئے قریب جدا ہو گئے ہو تم

    رہتے ہوئے قریب جدا ہو گئے ہو تم بندہ نواز جیسے خدا ہو گئے ہو تم مجبوریوں کو دیکھ کے اہل نیاز کی شایان اعتبار جفا ہو گئے ہو تم ہوتا نہیں ہے کوئی کسی کا جہاں رفیق ان منزلوں میں راہنما ہو گئے ہو تم تنہا تمہیں ہو جن کی محبت کا آسرا ان بیکسوں کے دل کی دعا ہو گئے ہو تم دے کر نوید نغمۂ ...

    مزید پڑھیے

    نہ تنہا نسترین و نسترن سے عشق ہے مجھ کو

    نہ تنہا نسترین و نسترن سے عشق ہے مجھ کو فدا کار چمن ہوں کل چمن سے عشق ہے مجھ کو اسی کی گود میں پلتی رہی ہے زندگی میری مقدس وادی گنگ و جمن سے عشق ہے مجھ کو محبت ہے ازل کے دن سے شامل میری فطرت میں بلا تفریق شیخ و برہمن سے عشق ہے مجھ کو اگر چہرے ہوں افسردہ تو جینے کا مزا کیا ہے عروس ...

    مزید پڑھیے

    مدتوں سے کوئی پیغام نہیں آتا ہے

    مدتوں سے کوئی پیغام نہیں آتا ہے جذبۂ دل بھی مرے کام نہیں آتا ہے ہائے انداز تغافل کہ دم ذکر وفا یاد ان کو بھی مرا نام نہیں آتا ہے اف وہ معصوم و حیا ریز نگاہیں جن پر قتل کے بعد بھی الزام نہیں آتا ہے کام کچھ میری تباہی کے سوا دنیا میں تجھ کو اے گردش ایام نہیں آتا ہے مہرباں دیدۂ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3