Anwar Maqsood Zahidi

انور مقصود زاہدی

انور مقصود زاہدی کی نظم

    مگر میری آنکھوں میں

    مینہ برستا ہے آنگن میں بوندوں کی رم جھم میں چڑیاں چہکتی ہوئی چار سو گھومتی ہیں چھتوں پر گھنے کالے بادل بنے دیوتا جھومتے ہیں ستونوں سے لپٹی ہوئی سرخ پھولوں کی بیلیں برستے ہوئے مینہ کی بوچھار میں اپنا جوبن نکھارے مچلتی ہیں آنگن میں کھلتے ہوئے خالی کمرے اندھیرے کی بکل میں سمٹے ...

    مزید پڑھیے

    آگ

    سلگتے ہوئے میٹھے جذبات کی آگ سے جسم کچھ اس طرح تپ رہا ہے کہ جی چاہتا ہے نظر جو بھی آئے اسے اپنی بانہوں میں کچھ ایسے بھینچوں کہ میرے بدن میں سما جائے وہ یوں نظر تک نہ آئے ہٹاؤں جو بانہیں میں اس کے گلے سے تو ڈھیر ایک مٹی کا قدموں میں پاؤں

    مزید پڑھیے

    دوسرے سائرن سے پہلے

    اندھیرا ہے ابھی تم اپنے ہونٹوں کو یونہی میرے لبوں سے متصل رکھو ابھی اس وقت تک تھامے رہو میرے بدن کو اپنی بانہوں سے کہ جب تک اک دھماکے سے پھٹے آتش فشاں جسموں کا اور کتنے ہی قرنوں کی چھپی حدت بہے لاوے کی صورت میں کہ جب تک سائرن کی چیختی مکروہ موسیقی فضا کو پھاڑ دے اور جگمگائیں ...

    مزید پڑھیے