درد عروج پر آ جائے تو
آ ری میل کچیلی بھوکی ننگی دنیا میں نے اک دن تیری قیمت اک کم بیش روپے رکھی تھی اپنے کہے پر آج بہت شرمندہ ہوں آ میں تیرے سنگ اک آخری رقص کروں آگ اور دھوئیں کی آمیزش سے سدرہ بوس درخت بنائیں اور پھر اس کے سائے تلے ہم گرجیلے گیتوں کی لے پر چھاتی سے چھاتی ٹکرائیں قدم سے قدم ملائیں کیا ...