انوار فطرت کی نظم

    درد عروج پر آ جائے تو

    آ ری میل کچیلی بھوکی ننگی دنیا میں نے اک دن تیری قیمت اک کم بیش روپے رکھی تھی اپنے کہے پر آج بہت شرمندہ ہوں آ میں تیرے سنگ اک آخری رقص کروں آگ اور دھوئیں کی آمیزش سے سدرہ بوس درخت بنائیں اور پھر اس کے سائے تلے ہم گرجیلے گیتوں کی لے پر چھاتی سے چھاتی ٹکرائیں قدم سے قدم ملائیں کیا ...

    مزید پڑھیے

    پارلے تٹ

    رات کی پروا سوکھے پتے نیلے پیلے رتے اک محتاط سی چاپ کوئی طلسمی جاپ چاروں اور میں لہریں لیتی ایک پرانی خوشبو رات ہوئی آنچل کی سیاہی تن من نور کا پھول حوض کی مرمر والی کگر تاروں بھری کہانی شیشہ شیشہ پانی پانی میں دو عکس لرزاں لرزاں رقص دھیمے گیت فرشتوں والے پاک سرشتوں والے پارلے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2