انوار فطرت کی نظم

    غصیلا پرندہ ایک دن اسے کھا جائے گا

    اک موجود میں خوف کا بے حد رات سمندر چھل چھل چھلکے ناموجود کی اک موہوم سی روشن مچھلی پھڑکے ابھرے ڈوبے ایک غصیلے سچ کا بے رنگ طائر نامعلوم سے نامعلوم تلک اپنے پر پھیلائے سائیں سائیں اس پر جھپٹے ننھی مچھلی کب تک خود کو بچائے

    مزید پڑھیے

    زینے تو بس زینے ہیں

    جس نے جنم کی گھٹی چکھی اس کو زینے طے کرنا ہیں اندر باہر نیچے اوپر آگے پیچھے زینے ہر ہر اور جتنا جانو چڑھ آئے اتنا سمجھو اتر چکے ہو اس نے کہا زینے عجب فریب ہیں بابا آج تلک یہ کھل نہیں پائے زینے یہ بل کھاتے زینے جنم جنم کے پھیر ازل گھڑی سے انت سمے تک زینے اپرم پار اس نے کہا زینہ ...

    مزید پڑھیے

    باتیں پاگل ہو جاتی ہیں

    میری بند گلی کے سارے گھر کتنے عجیب سے لگتے ہیں محرابی دروازے جیسے مالیخولیا کی بیماری میں دھیرے دھیرے مرتے شخص کی کیچ بھری آنکھیں ہوں آگے بڑھی ہوئی بلکونیاں جیسے احمق اور ہونق لوگوں کی لٹکی ہوئی تھوڑیاں ہوتی ہیں اک دوجے میں الجھے بیٹھک آنگن سونے والے کمرے اور رسوئیاں سارا یوں ...

    مزید پڑھیے

    اداسی ایک لڑکی ہے

    دسمبر کی گھنی راتوں میں جب بادل برستا ہے لرزتی خامشی جب بال کھولے کاریڈوروں میں سسکتی ہے تو آتش دان کے آگے کہیں سے وہ دبے پاؤں مرے پہلو میں آتی ہے اور اپنے مرمریں ہاتھوں سے میرے بال سلجھاتے ہوئے سرگوشیوں میں درد کے قصے سناتی ہے جولائی کی دوپہریں ممٹیوں سے جب اتر کر آنگنوں میں ...

    مزید پڑھیے

    بھاری پیڑوں تلے

    کشتی اندر گھور سمندر لہر لہر لہرائے پوروں اندر نیلا امبر گھمر گھمر چکرائے جس کو دیکھوں ڈوبتا جائے لوٹ کے پھر نہیں آئے گم ہو جائے کوئی نہیں پائے

    مزید پڑھیے

    آفٹر شاکس

    اب کے برس چومکھ میں ایک عظیم فراق کی برف پڑی ہے کہساروں نے کافوری قبریں اوڑھی ہیں کسی قدم کا نقش کوئی دھنستا ہوا پاؤں کوئی پھسلتا خندہ کوئی کلکاری کچھ بھی نہیں کچھ بھی تو نہیں سارے میں اک مرمر ایسی بے حس یخ کی شوک دہک رہی دھرتی کے سینے اوپر مرہم ایسی منفی دس کی مری پڑی خاموشی ایک ...

    مزید پڑھیے

    اداسی ایک لڑکی ہے

    دسمبر کی گھنی راتوں میں جب بادل برستا ہے لرزتی خامشی جب بال کھولے کاریڈوروں میں سسکتی ہے تو آتش دان کے آگے کہیں سے وہ دبے پاؤں مرے پہلو میں آتی ہے اور اپنے مرمریں ہاتھوں سے میرے بال سلجھاتے ہوئے سرگوشیوں میں درد کے قصے سناتی ہے جولائی کی دوپہریں ممٹیوں سے جب اتر کر آنگنوں میں ...

    مزید پڑھیے

    مسیحا فریسی زمانہ

    مسیحا کہ جس کے دہن میں زباں ہی نہیں تھی بھلا کیسے اندھوں کو تبلیغ کرتا کہ آیت بصارت کی محتاج ہے فریسی کہ سامع تھے بینا نہیں تھے بھلا کس طرح سے اشارہ سمجھتے سماعت کا ہیکل آواز آواز بت کدہ ہے زمانہ کہ بینا بھی اور ناطق بھی ہے یہ سب کچھ کہاں مانتا ہے صلیبیں بنانے کا فن جانتا ہے

    مزید پڑھیے

    کینچلی بدلتی رات

    پائیں باغ میں چاند اترا اور چندن مہکا رات کی سانول ڈالی سے اک نرم گلابی ناگن لپٹی چاروں اور میں ریشم نرم ہوا کا جنگل دود گلابی ہریل مخمل حوض کنارا سیمیں پانی جھل جھل کرتا جسم اس پر ایک سیاہ طلسم دور محل کی کھڑکی میں وہ دہکا اک انگارا صبح کے مقتل میں اک کوندا سجل لہو کا دھارا سیج ...

    مزید پڑھیے

    تو بھی ایسا سوچتی ہوگی

    وقت نے ہم کو کس رستے پر لا ڈالا ہے دونوں اک ان چاہی ہمراہی کی سولی لے کر بوجھل بوجھل پاؤں دھرتے جائیں چلتے جائیں تو بھی آخر انساں ہے تیرے پاس بھی ارمانوں کا ریشم ہوگا کبھی کبھی تو تو بھی درد کی سوئی لے کر کوئی لمحہ کاڑھتی ہوگی چلتے چلتے کبھی کبھی کوئی بھیگا پل گئے دنوں کے بحر میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2