وہ بت بنا نگاہ جمائے کھڑا رہا
وہ بت بنا نگاہ جمائے کھڑا رہا میں آنکھ بند کر کے اسے پوجتا رہا خوش فہمیوں کا آج بھرم کھل گیا تو کیا اک موڑ پر تو اس کا مرا سامنا رہا تم کو تو ایک عمر ہوئی ہے جدا ہوئے حیراں ہوں رات بھر میں کسے ڈھونڈھتا رہا اک اک دریچہ بند تھا پھر بھی یہ ڈر رہا چھپ چھپ کے جیسے کوئی ہمیں جھانکتا ...