Anwar Anjum

انوار انجم

انوار انجم کی غزل

    وہ بت بنا نگاہ جمائے کھڑا رہا

    وہ بت بنا نگاہ جمائے کھڑا رہا میں آنکھ بند کر کے اسے پوجتا رہا خوش فہمیوں کا آج بھرم کھل گیا تو کیا اک موڑ پر تو اس کا مرا سامنا رہا تم کو تو ایک عمر ہوئی ہے جدا ہوئے حیراں ہوں رات بھر میں کسے ڈھونڈھتا رہا اک اک دریچہ بند تھا پھر بھی یہ ڈر رہا چھپ چھپ کے جیسے کوئی ہمیں جھانکتا ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہوگا

    ہوا کرے اگر اس کو کوئی گلہ ہوگا زباں کھلی ہے تو پھر کچھ تو فیصلہ ہوگا کبھی کبھی تو یہ دل میں سوال اٹھتا ہے کہ اس جدائی میں کیا اس نے پا لیا ہوگا وہ گرم گرم نفس کیسے ٹھہرتے ہوں گے اب ان شبوں کو وہ کیسے گزارتا ہوگا کبھی جو گزروں ترے شہر سے تو سوچتا ہوں کہ اس زمین پہ کیا کیا قدم پڑا ...

    مزید پڑھیے

    جہان بھر سے نہ یوں میرا تذکرہ کیجے

    جہان بھر سے نہ یوں میرا تذکرہ کیجے میں دل کا راز ہوں دل سے مرا گلہ کیجے یہ کیا یقیں کہ سمجھ لے گا ہر اشارہ وہ لبوں کا فرض نگاہوں سے کیوں ادا کیجے نصیب میں جو کبھی صبح کا اجالا ہو تو مل ہی جائے گا ہر رات کیا دعا کیجے خلوص کو بھی یہاں مصلحت کہیں گے لوگ بھلا یہی ہے کسی سے نہ جو بھلا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ہاتھ اپنا مرے ہاتھ میں تھما دیجے

    یہ ہاتھ اپنا مرے ہاتھ میں تھما دیجے تھکا ہوا ہوں ذرا دل کو حوصلہ دیجے بس اب ملے ہیں تو کیجے نہ آس پاس کا خوف جو سنگ راہ ملے پاؤں سے ہٹا دیجے یہ اور دور ہے اور سب یہاں مجھی سے ہیں وہ کوہ کن کی حکایات سب بھلا دیجے نہیں ہے آپ کو فرصت اگر توجہ کی تو میں بھی لوٹتا ہوں گھر کو آ گیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3