جفا جو نے کی تھی وفا اتفاقاً
جفا جو نے کی تھی وفا اتفاقاً بشر ہے ہوئی تھی خطا اتفاقاً زمانہ مجھے رند کہنے لگا ہے کبھی چکھ لیا تھا مزا اتفاقاً مری زندگی ڈھل گئی نغمگی میں سنی تھی کسی کی صدا اتفاقاً ترے ایک خط نے کیا راز افشا پڑا رہ گیا تھا کھلا اتفاقاً مری بے خودی نے جہاں لا کے چھوڑا ترے گھر کا تھا راستا ...