Anwar Ahmad Qureshi Nashtar

انوار احمد قریشی نشتر

  • 1939

انوار احمد قریشی نشتر کی غزل

    جفا جو نے کی تھی وفا اتفاقاً

    جفا جو نے کی تھی وفا اتفاقاً بشر ہے ہوئی تھی خطا اتفاقاً زمانہ مجھے رند کہنے لگا ہے کبھی چکھ لیا تھا مزا اتفاقاً مری زندگی ڈھل گئی نغمگی میں سنی تھی کسی کی صدا اتفاقاً ترے ایک خط نے کیا راز افشا پڑا رہ گیا تھا کھلا اتفاقاً مری بے خودی نے جہاں لا کے چھوڑا ترے گھر کا تھا راستا ...

    مزید پڑھیے

    رات اک بدنام گھر کی ہو رہی تھی چاندنی

    رات اک بدنام گھر کی ہو رہی تھی چاندنی ایک میلی چاندنی کو دھو رہی تھی چاندنی اک بڑے ہوٹل کی ویراں چاندنی پر لیٹ کر جانے کیوں اپنا تقدس کھو رہی تھی چاندنی دوستوں کے ساتھ وہ تھا میکدے میں رات بھر اور بستر پر اکیلی سو رہی تھی چاندنی شہر میں جلتے مکاں بہتے لہو کو دیکھ کر جنگلوں میں ...

    مزید پڑھیے

    بول دنیا کے رسیلے ہو گئے

    بول دنیا کے رسیلے ہو گئے پھر یہ لہجے کیوں کٹیلے ہو گئے اتنی کم بارش میں کیا ہوتا بھلا خشک پتے صرف گیلے ہو گئے ایک گردہ بک گیا تو کیا ہوا ہاتھ تو بیٹی کے پیلے ہو گئے چیتھڑے پہلے تھے اب اجلا کفن مر گئے تو ہم سجیلے ہو گئے زہر اگلنا جن کا شیوہ کل رہا آج ان کے ہونٹ نیلے ہو گئے جانتے ...

    مزید پڑھیے