Anjum Saleemi

انجم سلیمی

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

Prominent contemporary pakistani poet known for high seriousness of his poetic content.

انجم سلیمی کی غزل

    کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا

    کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا اک اور مرتبے پہ مجھے رکھ دیا گیا اک بے بدن کا عکس بنایا گیا ہوں میں بے آب آئینے پہ مجھے رکھ دیا گیا کچھ تو کھنچی کھنچی سی تھی ساعت وصال کی کچھ یوں بھی فاصلے پہ مجھے رکھ دیا گیا منہ مانگے دام دے کے خریدا اور اس کے بعد اک خاص زاویے پہ مجھے رکھ ...

    مزید پڑھیے

    اس سے آگے تو بس لا مکاں رہ گیا

    اس سے آگے تو بس لا مکاں رہ گیا یہ سفر بھی مرا رائیگاں رہ گیا ہو گئے اپنے جسموں سے بھی بے نیاز اور پھر بھی کوئی درمیاں رہ گیا راکھ پوروں سے جھڑتی گئی عمر کی سانس کی نالیوں میں دھواں رہ گیا اب تو رستہ بتانے پہ مامور ہوں بے ہدف تیر تھا بے کماں رہ گیا جب پلٹ ہی چلے ہو اے دیدہ ورو مجھ ...

    مزید پڑھیے

    اسے چھوتے ہوئے بھی ڈر رہا تھا

    اسے چھوتے ہوئے بھی ڈر رہا تھا وہ میرا پہلا پہلا تجربہ تھا اگرچہ دکھ ہمارے مشترک تھے مگر جو دو دلوں میں فاصلہ تھا کبھی اک دوسرے پر کھل نہ پائے ہمارے درمیاں اک تیسرا تھا وہ اک دن جانے کس کو یاد کر کے مرے سینے سے لگ کے رو پڑا تھا اسے بھی پیار تھا اک اجنبی سے مرے بھی دھیان میں اک ...

    مزید پڑھیے

    میں جب وجود سے ہوتے ہوئے گزرتا ہوں

    میں جب وجود سے ہوتے ہوئے گزرتا ہوں خود اپنے آپ پہ روتے ہوئے گزرتا ہوں اسی لیے تو مجھے تو دکھائی دیتا نہیں میں تیرے خواب سے سوتے ہوئے گزرتا ہوں گلہ گزار دلوں سے مرا گزر ہے میاں میں موتیوں کو پروتے ہوئے گزرتا ہوں وہی زمانہ مری راہ روک لیتا ہے میں جس زمانے سے ہوتے ہوئے گزرتا ...

    مزید پڑھیے

    کیسی صحبت ہے کیسی تنہائی

    کیسی صحبت ہے کیسی تنہائی ہم ہیں اک دوسرے کی تنہائی پہلا دن ہے زمیں پہ آدم کا پہلی ہجرت ہے پہلی تنہائی آدھے بستر پہ آ بڑھو تم بھی بانٹ لیں آدھی آدھی تنہائی گفتگو نے تھکا دیا ہے بہت آ مری دوست میری تنہائی جب خدا بھی نہیں تھا ساتھ مرے مجھ پہ بیتی ہے ایسی تنہائی میں نے سمجھی زباں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے بھی سہنی پڑے گی مخالفت اپنی

    مجھے بھی سہنی پڑے گی مخالفت اپنی جو کھل گئی کبھی مجھ پر منافقت اپنی میں خود سے مل کے کبھی صاف صاف کہہ دوں گا مجھے پسند نہیں ہے مداخلت اپنی میں شرمسار ہوا اپنے آپ سے پھر بھی قبول کی ہی نہیں میں نے معذرت اپنی زمانے سے تو مرا کچھ گلہ نہیں بنتا کہ مجھ سے میرا تعلق تھا معرفت ...

    مزید پڑھیے

    اچھے موسم میں تگ و تاز بھی کر لیتا ہوں

    اچھے موسم میں تگ و تاز بھی کر لیتا ہوں پر نکل آتے ہیں پرواز بھی کر لیتا ہوں تجھ سے یہ کیسا تعلق ہے جسے جب چاہوں ختم کر دیتا ہوں آغاز بھی کر لیتا ہوں گنبد ذات میں جب گونجنے لگتا ہوں بہت خامشی توڑ کے آواز بھی کر لیتا ہوں یوں تو اس حبس سے مانوس ہیں سانسیں میری ویسے دیوار میں در باز ...

    مزید پڑھیے

    یہ محبت کا جو انبار پڑا ہے مجھ میں

    یہ محبت کا جو انبار پڑا ہے مجھ میں اس لیے ہے کہ مرا یار پڑا ہے مجھ میں چھینٹ اک اڑ کے مری آنکھ میں آئی تو کھلا ایک دریا ابھی تہہ دار پڑا ہے مجھ میں میری پیشانی پہ اس بل کی جگہ ہے ہی نہیں صبر کے ساتھ جو ہموار پڑا ہے مجھ میں ہر تعلق کو محبت سے نبھا لیتا ہے دل ہے یا کوئی اداکار پڑا ہے ...

    مزید پڑھیے

    خاک چھانی نہ کسی دشت میں وحشت کی ہے

    خاک چھانی نہ کسی دشت میں وحشت کی ہے میں نے اک شخص سے اجرت پہ محبت کی ہے خود کو دھتکار دیا میں نے تو اس دنیا نے میری اوقات سے بڑھ کر مری عزت کی ہے جی میں آتا ہے مری مجھ سے ملاقات نہ ہو بات ملنے کی نہیں بات طبیعت کی ہے اب بھی تھوڑی سی مرے دل میں پڑی ہے شاید زرد سی دھوپ جو دیوار سے ...

    مزید پڑھیے

    ظہور کشف و کرامات میں پڑا ہوا ہوں

    ظہور کشف و کرامات میں پڑا ہوا ہوں ابھی میں اپنے حجابات میں پڑا ہوا ہوں مجھے یقیں ہی نہیں آ رہا کہ یہ میں ہوں عجب توہم و شبہات میں پڑا ہوا ہوں گزر رہی ہے مجھے روندتی ہوئی دنیا قدیم و کہنہ روایات میں پڑا ہوا ہوں بچاؤ کا کوئی رستہ نہیں بچا مجھ میں میں اپنے خانۂ شہ مات میں پڑا ہوا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4