Anjum Saleemi

انجم سلیمی

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

Prominent contemporary pakistani poet known for high seriousness of his poetic content.

انجم سلیمی کی غزل

    فلک نژاد سہی سرنگوں زمیں پہ تھا میں

    فلک نژاد سہی سرنگوں زمیں پہ تھا میں جبین خاک پہ تھی اور مری جبیں پہ تھا میں گندھی پڑی تھی مری خاک خال و خد کے بغیر ابھی ہمکتا ہوا چاک اولیں پہ تھا میں یہ تب کی بات ہے جب کن نہیں کہا گیا تھا کہیں کہیں پہ خدا تھا کہیں کہیں پہ تھا میں نیا نیا میں نکالا ہوا تھا جنت سے زمیں بنائی گئی ...

    مزید پڑھیے

    سخت مشکل میں کیا ہجر نے آسان مجھے

    سخت مشکل میں کیا ہجر نے آسان مجھے دوسرا عشق ہوا پہلے کے دوران مجھے تیرے اندر کی اداسی کے مشابہ ہوں میں خال و خد سے نہیں آواز سے پہچان مجھے اجنبی شہر میں اک لقمے کو ترسا ہوا میں میزباں جسموں نے سمجھا نہیں مہمان مجھے ایک ہی شکل کے سب چہرے تھے لیکن پھر بھی ایک چہرے نے تو بے حد کیا ...

    مزید پڑھیے

    رات ترے خوابوں نے مجھ پر یوں ارزانی کی

    رات ترے خوابوں نے مجھ پر یوں ارزانی کی ساری حسرت نکل گئی مری تن آسانی کی پڑا ہوا ہوں شام سے میں اسی باغ تازہ میں مجھ میں شاخ نکل آئی ہے رات کی رانی کی اس چوپال کے پاس اک بوڑھا برگد ہوتا تھا ایک علامت گم ہے یہاں سے مری کہانی کی تم نے کچھ پڑھ کر پھونکا مٹی کے پیالے میں یا مٹی میں ...

    مزید پڑھیے

    آئینہ صاف تھا دھندلا ہوا رہتا تھا میں

    آئینہ صاف تھا دھندلا ہوا رہتا تھا میں اپنی صحبت میں بھی گھبرایا ہوا رہتا تھا میں اپنا چہرہ مجھے کتبے کی طرح لگتا تھا اپنے ہی جسم میں دفنایا ہوا رہتا تھا میں جس محبت کی ضرورت تھی مرے لوگوں کو اس محبت سے بھی باز آیا ہوا رہتا تھا میں تو نہیں آتا تھا جس روز ٹہلنے کے لیے شاخ کے ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    چلا ہوس کے جہانوں کی سیر کرتا ہوا

    چلا ہوس کے جہانوں کی سیر کرتا ہوا میں خالی ہاتھ خزانوں کی سیر کرتا ہوا پکارتا ہے کوئی ڈوبتا ہوا سایا لرزتے آئینہ خانوں کی سیر کرتا ہوا بہت اداس لگا آج زرد رو مہتاب گلی کے بند مکانوں کی سیر کرتا ہوا میں خود کو اپنی ہتھیلی پہ لے کے پھرتا رہا خطر کے سرخ نشانوں کی سیر کرتا ...

    مزید پڑھیے

    دیوار پہ رکھا تو ستارے سے اٹھایا

    دیوار پہ رکھا تو ستارے سے اٹھایا دل بجھنے لگا تھا سو نظارے سے اٹھایا بے جان پڑا دیکھتا رہتا تھا میں اس کو اک روز مجھے اس نے اشارے سے اٹھایا اک لہر مجھے کھینچ کے لے آئی بھنور میں وہ لہر جسے میں نے کنارے سے اٹھایا گھر میں کہیں گنجائش در ہی نہیں رکھی بنیاد کو کس شک کے سہارے سے ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک جسم ایک ہی قد میں پڑا رہوں

    بس ایک جسم ایک ہی قد میں پڑا رہوں بے حد ہوں میں تو کیوں کسی حد میں پڑا رہوں صبح ازل ہے کب سے مرے انتظار میں جی چاہتا ہے طاق ابد میں پڑا رہوں اک روز تنگ آ کے مجھے سوچنا پڑا کب تک میں اپنی صحبت بد میں پڑا رہوں آگے نکلتا جاتا ہوں میں اپنے آپ سے اب در گزر کروں کہ حسد میں پڑا رہوں بے ...

    مزید پڑھیے

    چراغ ہاتھ میں ہو تو ہوا مصیبت ہے

    چراغ ہاتھ میں ہو تو ہوا مصیبت ہے سو مجھ مریض انا کو شفا مصیبت ہے سہولتیں تو مجھے راس ہی نہیں آتیں قبولیت کی گھڑی میں دعا مصیبت ہے اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو پھر ایک دن یوں ہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے میں آج ڈوب چلا ریت کے سمندر میں چہار سمت یہ رقص ہوا مصیبت ہے خود آگہی کا جو ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے ہاتھ سے کیا کیا ہوا نہیں مرے ساتھ

    خود اپنے ہاتھ سے کیا کیا ہوا نہیں مرے ساتھ میں کیا کہوں مرا کچھ بھی گلہ نہیں مرے ساتھ میں اس کے ساتھ ہوں بے شک میں اس کے پاس نہیں وہ میرے پاس تھا لیکن وہ تھا نہیں مرے ساتھ نکل پڑا ہوں کسی کو ملے بتائے بغیر سفر بخیر کوئی بھی دعا نہیں مرے ساتھ وہ میرے دکھ میں مرا جا رہا ہے حیرت ...

    مزید پڑھیے

    کل تو ترے خوابوں نے مجھ پر یوں ارزانی کی

    کل تو ترے خوابوں نے مجھ پر یوں ارزانی کی ساری حسرت نکل گئی مری تن آسانی کی پڑا ہوا ہوں شام سے میں اسی باغ تازہ میں مجھ میں شاخ نکل آئی ہے رات کی رانی کی اس چوپال کے پاس اک بوڑھا برگد ہوتا تھا ایک علامت گم ہے یہاں سے مری کہانی کی تم نے کچھ پڑھ کر پھونکا مٹی کے پیالے میں یا مٹی میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4