Anjum Saleemi

انجم سلیمی

پاکستان کے اہم شاعر، اپنے سنجیدہ لہجے کے لیے معروف

Prominent contemporary pakistani poet known for high seriousness of his poetic content.

انجم سلیمی کی غزل

    کھینچا ہوا ہے گردش افلاک نے مجھے

    کھینچا ہوا ہے گردش افلاک نے مجھے خود سے نہیں اترنے دیا چاک نے مجھے موج ہوا میں تیرتا پھرتا تھا میں کہیں پھر یوں ہوا کہ کھینچ لیا خاک نے مجھے میں روشنی میں آ کے پشیماں بہت ہوا عریاں کیا ہے عشق کی پوشاک نے مجھے آئینے کی طرح تھا میں شفاف و آب دار گدلا دیا ہے چشم ہوس ناک نے ...

    مزید پڑھیے

    سب کو اپنے ذہن سے جھٹکا خود کو یاد کیا

    سب کو اپنے ذہن سے جھٹکا خود کو یاد کیا لیکن ایسا سب کچھ لٹ جانے کے بعد کیا اس کو اس کی اپنی قربت نے سرشار رکھا مجھے تو شاید میرے ہجر نے ہی برباد کیا میں بھی خالی ہو کر اپنے گھر لوٹ آیا ہوں اس نے بھی اک ویرانے کو جا آباد کیا کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے کیسی پیاری روحوں ...

    مزید پڑھیے

    صلح کے بعد محبت نہیں کر سکتا میں

    صلح کے بعد محبت نہیں کر سکتا میں مختصر یہ کہ وضاحت نہیں کر سکتا میں دل ترے ہجر میں سرشار ہوا پھرتا ہے اب کسی دشت میں وحشت نہیں کر سکتا میں میرے چہرے پہ ہیں آنکھیں مرے سینے میں ہے دل اس لیے تیری حفاظت نہیں کر سکتا میں ہر طرف تو نظر آتا ہے جدھر جاتا ہوں تیرے امکان سے ہجرت نہیں کر ...

    مزید پڑھیے

    سحر کو کھوج چراغوں پہ انحصار نہ کر

    سحر کو کھوج چراغوں پہ انحصار نہ کر ہوا سے دوستی رکھ اس کا اعتبار نہ کر یقین کر او محبت یہی مناسب ہے زیادہ دن مری صحبت کو اختیار نہ کر یہ کوئی رشتہ نہیں ہے فقط ندامت ہے تو مجھ سے عمر میں کم ہے سو مجھ سے پیار نہ کر مجھے پتہ ہے کہ برباد ہو چکا ہوں میں تو میرا سوگ منا مجھ کو سوگوار نہ ...

    مزید پڑھیے

    درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا

    درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا عشق میں بابا ایک جنم سے کام نہیں چل سکتا بہت دنوں سے مجھ میں ہے کیفیت رونے والی درد فراواں سینے میں کہرام نہیں چل سکتا تہمت عشق مناسب ہے اور ہم پر جچتی ہے ہم ایسوں پر اور کوئی الزام نہیں چل سکتا چم چم کرتے حسن کی تم جو اشرفیاں لائے ہو اس ...

    مزید پڑھیے

    ان دنوں خود سے فراغت ہی فراغت ہے مجھے

    ان دنوں خود سے فراغت ہی فراغت ہے مجھے عشق بھی جیسے کوئی ذہنی سہولت ہے مجھے میں نے تجھ پر ترے ہجراں کو مقدم جانا تیری جانب سے کسی رنج کی حسرت ہے مجھے خود کو سمجھاؤں کہ دنیا کی خبر گیری کروں اس محبت میں کوئی ایک مصیبت ہے مجھے دل نہیں رکھتا کسی اور تمنا کی ہوس ایسا ہو پائے تو کیا ...

    مزید پڑھیے

    میں خود کو مسمار کر کے ملبہ بنا رہا ہوں

    میں خود کو مسمار کر کے ملبہ بنا رہا ہوں یہی بنا سکتا ہوں لہٰذا بنا رہا ہوں کسی کے سینے میں بھر رہا ہوں میں اپنی سانسیں کسی کے کتبے کو اپنا کتبہ بنا رہا ہوں بہت بھلی لگتی ہے اسے بھی مری اداسی خوشی خوشی خود کو دل گرفتہ بنا رہا ہوں ہجوم کو میرے قہقہوں کی خبر نہیں ہے بنا ہوا ہوں کہ ...

    مزید پڑھیے

    عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں

    عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں مجھ سے پوچھے تو سہی آئینہ خانہ میرا خال و خد لے کے میں ہم راہ کدھر جاتا ہوں دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں میں کسی دوسرے ...

    مزید پڑھیے

    دن لے کے جاؤں ساتھ اسے شام کر کے آؤں

    دن لے کے جاؤں ساتھ اسے شام کر کے آؤں بے کار کے سفر میں کوئی کام کر کے آؤں بے مول کر گئیں مجھے گھر کی ضرورتیں اب اپنے آپ کو کہاں نیلام کر کے آؤں میں اپنے شور و شر سے کسی روز بھاگ کر اک اور جسم میں کہیں آرام کر کے آؤں کچھ روز میرے نام کا حصہ رہا ہے وہ اچھا نہیں کہ اب اسے بد نام کر کے ...

    مزید پڑھیے

    جست بھرتا ہوا فردا کے دہانے کی طرف

    جست بھرتا ہوا فردا کے دہانے کی طرف جا نکلتا ہوں کسی اور زمانے کی طرف آنکھ بیدار ہوئی کیسی یہ پیشانی پر کیسا دروازہ کھلا آئینہ خانے کی طرف خود ہی انجام نکل آئے گا اس واقعے سے ایک کردار روانہ ہے فسانے کی طرف حل نکلتا ہے یہی رشتوں کی مسماری کا لوگ آ جاتے ہیں دیوار اٹھانے کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4