Anees Nagi

انیس ناگی

ممتاز پاکستانی شاعر، فکشن نویس اور نقاد، ’زوال‘ اور ’دیوار کے پیچھے‘ کے نام سے دو اہم ناول تحریر کیے، پاکستانی ادب کی ایک مختصر تاریخ بھی لکھی

Prominent Pakistani poet, fiction writer, and critic; wrote two important novels Zawaal, and Deewaar ke Peechhe; also wrote a history of Pakistani literature

انیس ناگی کی نظم

    ایک نظم

    کس تصور کے رقص میں گو تری صدا کا وجود مجھ کو ملا نہیں ہے کسی کتاب کہن میں چلتی عظیم دانش کے نقش پا میں ترے بدن کا نشان مجھ کو ملا نہیں ہے میں چار سمتوں سے پوچھتا ہوں عناصروں کے تغیروں سے میں سلطنت کے نجومیوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ کون ہے تو جو میرے خوابوں کے سلسلے میں مرے تفکر کے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    مرا مقدر عجیب ہے میں طویل راتوں کا وہ دیا ہوں جو اک لگن سے ضمیر مجرم کے خواب میں کپکپا رہا ہوں اسے ملے گی نجات مجھ کو پتا نہیں ہے میں تیرگی کا تضاد ہوں اور ضمیر مجرم کا خواب ہوں

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    میں سرد مہر زندگی سے کیا طلب کروں طلب تو ایک بحر ہے زندگی تو سانس کی لپکتی ایک لہر ہے جو آ کے پھر گزر گئی چند سال اس کے نقش پا یہیں کہیں کسی کے ذہن میں رہے میں دیکھتا ہوں شاخ عمر زرد موسموں کی دھوپ میں اسی خیال خام میں کہ وقت گھڑی کی قید میں ہے برگ برگ جھک گئی ہے زندگی نے کیا دیا ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    رفتہ رفتہ سب آوازیں جو دل کے اندر ہیں اور باہر اک ایسے سکتے میں کھو جائیں گی جس کا مفہوم ابھی تک کسی اشاعت گھر کے حرفوں میں ڈھلا نہیں ہے آثار قدیمہ کے ماہر مدفون پرانے شہر کے اندر باہر سے کھود چکے ہیں لیکن اس کا مفہوم ابھی تک کسی عمارت کی شاہ گردش کی محرابوں میں اور کسی چار آئینے ...

    مزید پڑھیے

    اک بے کشش نظم

    پہلے کشش عورت میں تھی پھر کشش لفظوں میں تھی اب لفظ عورت بے کشش لہروں تک زمین و آسماں کو دیکھتے ہیں کائناتی سلسلوں میں سلسلہ وہ ڈھونڈتے ہیں جو ہمیں ویران کر کے جا چکا ہے

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    میں حیات مہمل کی جستجو میں سفر زمانے کا کر چکا ہوں میں اک جواری کی طرح ساری بساط اپنی لٹا چکا ہوں میں آدمی کے عظیم خوابوں کی سلطنت بھی گنوا چکا ہوں نہ جیب رخت سفر کا تحفہ لیے ہوئے ہے نہ ذہن میرا کسی تصور کا دکھ اٹھانے کسی محبت کا بوجھ سہنے کے واسطے اختلال میں ہے میں فاتح کی طرح چلا ...

    مزید پڑھیے

    خاموشی کا شہر

    ہوا دھند کے پھیلے لب چومتی ہے کہاں زندگی ہے؟ کہاں زندگی کے نشاں ہیں کہ تم شہر میں ہو جہاں ایک ہی روپ ہے جو ہمیشہ رہے گا اٹھو باؤلے اب تمہیں کس تمنا نے منزل کا دھوکا دیا ہے کہ تم سانس کی اوٹ میں چپ کھڑے سوچتے ہو یہاں ہر نفس بے صدا ہے یہاں ہر گھڑی اب سسکتی سی زنجیر ہر اک وفا تیرگی کا ...

    مزید پڑھیے

    ایک تیر اپنے لئے

    اس کون و مکاں کی دہلیز عبور کرنے سے پہلے شرابور بدن کو پونچھے بغیر اپنی مصیبتوں کا زمیں ایسا بوجھ اتارے بغیر ہم اپنے لہو کا محصول ادا کر چکے ہیں ہم جو ستارہ شناس ہیں ہم جو پرندوں کی یک اڑان سے موسموں کا مزاج بھانپ لیتے ہیں ہم جو آئینوں میں چٹختی ہوئی تہذیبوں کی تشخیص کا راز جانتے ...

    مزید پڑھیے

    حرف ایک جنگل

    کتابیں میرا جنگل ہیں جنہیں میں کاٹ کر اب بارہویں زینے پر بیٹھا ہوں معافی کے ہیولوں میں چمکتی صورتوں سے دور تنہا حرف کے صدمات سہتا ہوں کہ میں خود آگہی کے بھاری سانسوں کا سمندر ہوں جسے نمکین پانی کی سزا آبادیوں سے بادبان کی طرف کافی دور رکھتی ہے کتابیں میرا جنگل ہیں جہاں پر نفرتوں ...

    مزید پڑھیے