ایک نظم

مرا مقدر عجیب ہے
میں طویل راتوں کا وہ دیا ہوں
جو اک لگن سے
ضمیر مجرم کے خواب میں کپکپا رہا ہوں
اسے ملے گی نجات مجھ کو پتا نہیں ہے
میں تیرگی کا تضاد ہوں
اور ضمیر مجرم کا خواب ہوں