انیس انصاری کی غزل

    پتھریلی سی شام میں تم نے ایسے یاد کیا جانم

    پتھریلی سی شام میں تم نے ایسے یاد کیا جانم ساری رات تمہاری خاطر میں نے زہر پیا جانم سورج کی مانند بنا ہوں ریزہ ریزہ بکھرا ہوں اب جیون کا سر چشمہ ہوں ویسے خوب جلا جانم تم نے مجھ میں جو کچھ کھویا اس کی قیمت تم جانو میں نے تم سے جو کچھ پایا ہے وہ بیش بہا جانم تم کو بھی پہچان نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    نام تیرا بھی رہے گا نہ ستم گر باقی

    نام تیرا بھی رہے گا نہ ستم گر باقی جب ہے فرعون نہ چنگیز کا لشکر باقی اپنے چہروں کو سیاہی میں چھپانے والو نوک نیزہ پہ ہے سورج سا کوئی سر باقی تیرے ورثے پہ ہیں غاصب کی عقابی نظریں غفلتوں سے نہیں رہتے یہ جواہر باقی اک صدف سطح سمندر پہ بہا جاتا ہے اور ساحل پہ نہیں ایک شناور ...

    مزید پڑھیے

    جس کو سمجھے تھے تونگر وہ گداگر نکلا

    جس کو سمجھے تھے تونگر وہ گداگر نکلا ظرف میں کاسۂ درویش سمندر نکلا کبھی درویش کے تکیہ میں بھی آ کر دیکھو تنگ دستی میں بھی آرام میسر نکلا مشکلیں آتی ہیں آنے دو گزر جائیں گی لوگ یہ دیکھیں کہ کمزور دلاور نکلا جب گرفتوں سے بھی آگے ہو پہنچ مٹھی کی تب لگے گا کہ سمندر میں شناور ...

    مزید پڑھیے

    اس شہر کے لوگ عجیب سے ہیں اب سب ہی تمہارے اسیر ہوئے

    اس شہر کے لوگ عجیب سے ہیں اب سب ہی تمہارے اسیر ہوئے جب جاں پہ برستے تھے پتھر اس وقت ہمیں دلگیر ہوئے کچھ لوگ تمہاری آنکھوں سے کرتے ہیں طلب ہیرے موتی ہم صحرا صحرا ڈوب گئے اک آن میں جوگی فقیر ہوئے تم درد کی لذت کیا جانو کب تم نے چکھے ہیں زہر سبو ہم اپنے وجود کے شاہد ہیں سنگسار ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    دل پر یوں ہی چوٹ لگی تو کچھ دن خوب ملال کیا

    دل پر یوں ہی چوٹ لگی تو کچھ دن خوب ملال کیا پختہ عمر کو بچوں جیسے رو رو کر بے حال کیا ہجر کے چھوٹے گاؤں سے ہم نے شہر وصل کو ہجرت کی شہر وصل نے نیند اڑا کر خوابوں کو پامال کیا اتھلے کنویں بھی کل تک پانی کی دولت سے جل تھل تھے اب کے بادل ایسے سوکھے ندی کو کنگال کیا سورج جب تک ڈھال رہا ...

    مزید پڑھیے

    میں صحرا تھا جزیرہ ہو گیا ہوں

    میں صحرا تھا جزیرہ ہو گیا ہوں سمندر دیکھ تیرا ہو گیا ہوں بجز اک نام کہتا ہوں نہ سنتا میں ایسا گونگا بہرا ہو گیا ہوں تری آنکھوں نے دھویا ہے مجھے یوں میں بالکل صاف ستھرا ہو گیا ہوں تو سورج ہے میں آئینے کا ٹکڑا کرن چھو کر سنہرا ہو گیا ہوں مجھے روشن کئے ہے عکس تیرا میں تیرا شوخ ...

    مزید پڑھیے

    مرا ہر تیر نشانے پہ نہ پہنچا آخر

    مرا ہر تیر نشانے پہ نہ پہنچا آخر در سفر میں بھی ٹھکانے پہ نہ پہنچا آخر توتلی عمر میں جو بچہ ذرا مشفق تھا کچھ بڑا ہو کے دہانے پہ نہ پہنچا آخر جی کو سمجھاتا ہوں قسمت میں لکھا تھا سو ہوا کچھ سنبھل کر بھی بہانے پہ نہ پہنچا آخر ایک غم ہوتا تو سینے سے لگا لیتا کوئی غم کا انبار اٹھانے ...

    مزید پڑھیے

    مجھ پہ ہر ظلم روا رکھ کہ میں جو ہوں سو ہوں

    مجھ پہ ہر ظلم روا رکھ کہ میں جو ہوں سو ہوں مجھ کو اپنے سے جدا رکھ کہ میں جو ہوں سو ہوں میں کہ مصلوب ہوں دے مجھ کو بھی ظالم کا خطاب سنت عیسیٰ جلا رکھ کہ میں جو ہوں سو ہوں میرے گھر میں ہے جو غاصب تو نکالوں کہ نہیں مجھ پہ الزام جفا رکھ کہ میں جو ہوں سو ہوں تیرے مقتول پہ سرگرم ہیں سارے ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے شہر میں اتنے مکاں گرے کیسے

    تمہارے شہر میں اتنے مکاں گرے کیسے مرے عزیز ٹھکانے دھواں ہوئے کیسے میں شہر جبر سے گزرا تو سرخ رو ہو کر انہیں یہ فکر لہو کا نشاں مٹے کیسے سنا رہا ہوں کہانی ہزار راتوں کی کہ شاہزادے کے سر سے سناں ہٹے کیسے حساب خوب رکھا تم نے اپنی لاگت کا مرے نصاب میں سود و زیاں چلے کیسے ہر ایک شخص ...

    مزید پڑھیے

    بھر نہیں پایا ابھی تک زخم کاری ہائے ہائے

    بھر نہیں پایا ابھی تک زخم کاری ہائے ہائے دل کو تھامے ہیں لہو پھر بھی ہے جاری ہائے ہائے درد کا احساس گھٹ جاتا اگر چاہے کوئی ہو رہی ہے اور الٹے دل فگاری ہائے ہائے جسم تو پہلے ہی زخمی تھا مگر باقی تھا دل اب عدو کے ہاتھ میں خنجر ہے بھاری ہائے ہائے ہجر میں ویسے بھی آتی ہے مصیبت جان ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2