تشنگی
اٹھو حیات پہ خنجر کی دھار گزری ہے لہو کی بوندیں ٹپکتی ہیں زخمی روحوں سے سیاہ روشنی میں اور جاگ اٹھی وحشت لہو میں گھل گئی تلخی دلوں پہ نقش بنے یہ سانس سینے میں گھٹتی ہوئی می لگتی ہے یہ روز و شب کا تفکر یہ ساری عمر کا گھن حیات اوب گئی عدل کے اندھیروں سے کہاں تک عدل کی زنجیر ...