فراق یار میں کچھ کہئے سمجھایا نہیں جاتا
فراق یار میں کچھ کہئے سمجھایا نہیں جاتا دل وحشی کسی صورت سے بہلایا نہیں جاتا ہمیں نے چن لئے پھولوں کے بدلے خار دامن میں فقط گلچیں کے سر الزام ٹھہرایا نہیں جاتا سر بازار رسوا ہو گئے کیا ہم نہ کہتے تھے کسی سودائی کے منہ اس قدر آیا نہیں جاتا گریباں تھام لیں گے خار تو مشکل بہت ...