امرینہ قیصر کی غزل

    گھر بار کا میں بوجھ اٹھاتے ہوئے چلی

    گھر بار کا میں بوجھ اٹھاتے ہوئے چلی کاندھے سے کاندھا سب کے ملاتے ہوئے چلی ماں ہوں بہن ہوں بیٹی شریک حیات ہوں رشتوں کے سب تقاضے نبھاتے ہوئی چلی ہر شخص کی نگاہ کا تھا زاویہ جدا آنکھوں سے سب کی آنکھ ملاتے ہوئے چلی چلنا مرا مزاج ہے رکنا نہیں پسند اپنے لئے میں راہ بناتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    میری نظروں سے بھی تو دور کہاں ہوتا ہے

    میری نظروں سے بھی تو دور کہاں ہوتا ہے اپنے سائے پہ بھی اب تیرا گماں ہوتا ہے تیرے جذبات کے بہتے ہوئے دریا کی قسم لمحہ لمحہ تری چاہت سے جواں ہوتا ہے نیند آنکھوں سے بہت دور چلی جاتی ہے جب تصور میں ترا ذکر بیاں ہوتا ہے

    مزید پڑھیے

    مرد ہوں ایسے ستم گر نہیں اچھے لگتے

    مرد ہوں ایسے ستم گر نہیں اچھے لگتے آئینے توڑتے پتھر نہیں اچھے لگتے چاہنے والے بچھڑ جائیں تو دکھ ہوتا ہے بے وفائی کے بھی منظر نہیں اچھے لگتے چاند تارو کرو تاریک شبوں کو روشن مجھ کو تاریک سے منظر نہیں اچھے لگتے مجھ کو ان کھوکھلے دعووں سے بھی گھن آتی ہے پھول کے بھیس میں پتھر نہیں ...

    مزید پڑھیے