مرد ہوں ایسے ستم گر نہیں اچھے لگتے

مرد ہوں ایسے ستم گر نہیں اچھے لگتے
آئینے توڑتے پتھر نہیں اچھے لگتے


چاہنے والے بچھڑ جائیں تو دکھ ہوتا ہے
بے وفائی کے بھی منظر نہیں اچھے لگتے


چاند تارو کرو تاریک شبوں کو روشن
مجھ کو تاریک سے منظر نہیں اچھے لگتے


مجھ کو ان کھوکھلے دعووں سے بھی گھن آتی ہے
پھول کے بھیس میں پتھر نہیں اچھے لگتے


بات امرینہؔ سے کرنی ہو تو کھل کر کرنا
یہ حجابوں میں چھپے ڈر نہیں اچھے لگتے