Ammar Iqbal

عمار اقبال

عمار اقبال کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    تیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے

    تیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے دھوپ دہلیز پر پڑی ہوئی ہے دل پہ ناکامیوں کے ہیں پیوند آس کی سوئی بھی گڑی ہوئی ہے میرے جیسی ہے میری پرچھائیں دھوپ میں پل کے یہ بڑی ہوئی ہے گھیر رکھا ہے نارسائی نے اور خواہش وہیں کھڑی ہوئی ہے میں نے تصویر پھینک دی ہے مگر کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے ہارتا ...

    مزید پڑھیے

    جہل کو آگہی بناتے ہوئے

    جہل کو آگہی بناتے ہوئے مل گیا روشنی بناتے ہوئے کیا قیامت کسی پہ گزرے گی آخری آدمی بناتے ہوئے کیا ہوا تھا ذرا پتا تو چلے وقت کیا تھا گھڑی بناتے ہوئے کیسے کیسے بنا دیئے چہرے اپنی بے چہرگی بناتے ہوئے دشت کی وسعتیں بڑھاتی تھیں میری آوارگی بناتے ہوئے اس نے ناسور کر لیا ہوگا زخم ...

    مزید پڑھیے

    رات سے جنگ کوئی کھیل نئیں

    رات سے جنگ کوئی کھیل نئیں تم چراغوں میں اتنا تیل نئیں آ گیا ہوں تو کھینچ اپنی طرف میری جانب مجھے دھکیل نئیں جب میں چاہوں گا چھوڑ جاؤں گا اک سرائے ہے جسم جیل نئیں بنچ دیکھی ہے خواب میں خالی اور پٹری پر اس پہ ریل نئیں جس کو دیکھا تھا کل درخت کے گرد وہ ہرا اژدہا تھا بیل نئیں

    مزید پڑھیے

    جاؤ ماتم گزارو جانے دو

    جاؤ ماتم گزارو جانے دو جس کا غم ہے اسے منانے دو بیچ سے ایک داستاں ٹوٹی اور پھر بن گئے فسانے دو ہم فقیروں کو کچھ تو دو صاحب کچھ نہیں دے سکو تو طعنے دو ہاتھ جس کو لگا نہیں سکتا اس کو آواز تو لگانے دو تم دیا ہو تو ان پتنگوں کو کم سے کم روشنی میں آنے دو

    مزید پڑھیے

    عکس کتنے اتر گئے مجھ میں

    عکس کتنے اتر گئے مجھ میں پھر نہ جانے کدھر گئے مجھ میں میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں میں وہ پل تھا جو کھا گیا صدیاں سب زمانے گزر گئے مجھ میں یہ جو میں ہوں ذرا سا باقی ہوں وہ جو تم تھے وہ مر گئے مجھ میں میرے اندر تھی ایسی تاریکی آ کے آسیب ڈر گئے مجھ ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    زباں دراز

    میں اپنی بیماری بتانے سے معذور ہوں مجھے زبان کی عجیب بیماری ہو گئی ہے سو گفتگو سے پرہیز کرنے پر مجبور ہوں میرا لہجہ کرخت اور آواز بھاری ہو گئی ہے زبان میں فی لفظ ایک انچ اضافہ ہو رہا ہے پہلے بھی تو یہ کاندھوں پر پڑی تھی تمہیں میری مشکل کا اندازہ ہو رہا ہے تم جو مجھ سے بات کرنے پر ...

    مزید پڑھیے

    ہیلوسنیشن

    میں اپنے بند کمرے میں پڑا ہوں اور اک دیوار پر نظریں جمائے مناظر کے عجوبے دیکھتا ہوں اسی دیوار میں کوئی خلا ہے مجھے جو غار جیسا لگ رہا ہے وہاں مکڑی نے جال بن لیا ہے اور اب اپنے ہی جال میں پھنسی ہے وہیں پر ایک مردہ چھپکلی ہے کئی صدیوں سے جو ساکت پڑی ہے اب اس پر کائی جمتی جا رہی ہے اور ...

    مزید پڑھیے