خوف بن کر یہ خیال آتا ہے اکثر مجھ کو
خوف بن کر یہ خیال آتا ہے اکثر مجھ کو دشت کر جائے گا اک روز سمندر مجھ کو میں سراپا ہوں خبرنامۂ امروز جہاں کل بھلا دے نہ یہ دنیا کہیں پڑھ کر مجھ کو ہر نفس مجھ میں تغیر کی ہوائے لرزاں مرتسم کر نہ سکا کوئی بھی منظر مجھ کو اپنے ساحل پہ میں خود تشنہ دہن بیٹھا ہوں دیکھ دریا کی ترائی سے ...