Ameer Minai

امیر مینائی

داغ دہلوی کے ہم عصر۔ اپنی غزل ’ سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ‘ کے لئے مشہور ہیں

Eminent Urdu Poet and contemporary of Dagh Dehlvi. Famous for penning ghazal "Sarakti jaye hai rukh se naqaab aahista aahista".

امیر مینائی کی غزل

    جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے

    جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے ہے جوانی خود جوانی کا سنگار سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے کون ویرانے میں دیکھے گا بہار پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی بھیجنی ہے ایک کمسن کے ...

    مزید پڑھیے

    جب سے باندھا ہے تصور اس رخ پر نور کا

    جب سے باندھا ہے تصور اس رخ پر نور کا سارے گھر میں نور پھیلا ہے چراغ طور کا بخت واژوں سے جلے کیوں دل نہ مجھ محرور کا مرہم کافور سے منہ آ گیا ناسور کا اس قدر مشتاق ہوں زاہد خدا کے نور کا بت بھی بنوایا کبھی میں نے تو سنگ طور کا تجھ کو لائے گھر میں جنت کو جلایا رشک سے ہم بغل تجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    ہم لوٹتے ہیں وہ سو رہے ہیں

    ہم لوٹتے ہیں وہ سو رہے ہیں کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں کیا رنگ جہاں میں ہو رہے ہیں دو ہنستے ہیں چار رو رہے ہیں دنیا سے الگ جو ہو رہے ہیں تکیوں میں مزے سے سو رہے ہیں پہنچی ہے ہماری اب یہ حالت جو ہنستے تھے وہ بھی رو رہے ہیں تنہا تہ خاک بھی نہیں ہم حسرت کے ساتھ سو رہے ہیں سوتے ہیں لحد ...

    مزید پڑھیے

    اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

    اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں The one that I desire, this heart cannot displace The one who is unattainable I seek to embrace ڈال کے خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں throwing dust upon my blood my murderer proclaims Tis not henna on my palms that I cannot efface ضبط کمبخت نے ...

    مزید پڑھیے

    ہے خموشی ظلم چرخ دیو پیکر کا جواب

    ہے خموشی ظلم چرخ دیو پیکر کا جواب آدمی ہوتا تو ہم دیتے برابر کا جواب جو بگولا دشت غربت میں اٹھا سمجھا یہ میں کرتی ہے تعمیر دیوانی مرے گھر کا جواب ساتھ خنجر کے چلے گی وقت ذبح اپنی زبان جان دینے والے دیتے ہیں برابر کا جواب سجدہ کرتا ہوں جو میں ٹھوکر لگاتا ہے وہ بت پاؤں اس کا بڑھ ...

    مزید پڑھیے

    وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے

    وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے ہو نہ ہو اس میں بھی کوئی گھات ہے خلق ناحق درپئے اثبات ہے ہے دہن اس کا کہاں اک بات ہے بوسۂ چاہ زنخداں غیر لیں ڈوب مرنے کی یہ اے دل بات ہے گھر سے نکلے ہو نہتے وقت قتل یہ بھی بہر قتل عاشق گھات ہے میں نے اتنا ہی کہا بنواؤ خط یہ بگڑنے کی بھلا کیا بات ہے بعد ...

    مزید پڑھیے

    مرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا

    مرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا وہ سر مزار ہوتا میں تہہ مزار ہوتا ترا مے کدہ سلامت ترے خم کی خیر ساقی مرا نشہ کیوں اترتا مجھے کیوں خمار ہوتا میں ہوں نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی کہیں پا کے آسرا ...

    مزید پڑھیے

    پلا ساقیا ارغوانی شراب

    پلا ساقیا ارغوانی شراب کہ پیری میں دے نوجوانی شراب وہ شعلہ ہے ساقی کہ رنجک کی طرح اڑا دیتی ہے ناتوانی شراب کہاں بادۂ عیش تقدیر میں پیوں میں تو ہو جائے پانی شراب نہ لایا ہے شیشہ نہ جام و سبو پلاتا ہے ساقی زبانی شراب کہاں عقل برنا کہاں عقل پیر نئے سے ہے بہتر پرانی شراب مرے ...

    مزید پڑھیے

    سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

    سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا دبے ہونٹوں سے ...

    مزید پڑھیے

    فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا

    فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا شکست دل کا باقی ہم نے غربت میں اثر رکھا لکھا اہل وطن کو خط تو اک گوشہ کتر رکھا برابر آئینے کے بھی نہ سمجھے قدر وہ دل کی اسے زیر قدم رکھا اسے پیش نظر رکھا مٹائے دیدہ و دل دونوں میرے اشک خونیں نے عجب یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5