گزر کو ہے بہت اوقات تھوڑی
گزر کو ہے بہت اوقات تھوڑی کہ ہے یہ طول قصہ رات تھوڑی جو مے زاہد نے مانگی مست بولے بہت یا قبلۂ حاجات تھوڑی کہاں غنچہ کہاں اس کا دہن تنگ بڑھائی شاعروں نے بات تھوڑی اٹھے کیا زانوے غم سے سر اپنا بہت گزری رہی ہیہات تھوڑی خیال ضبط گریہ ہے جو ہم کو بہت امسال ہے برسات تھوڑی پلائے لے ...