Amanat Lakhnavi

امانت لکھنوی

اپنے ناٹک ’اندرسبھا‘ کے لیے مشہور، اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کے ہم عصر

Famous for his musical play 'Inder Sabha', contemporary of the last Nawab of Avadh, wajid Ali Shah.

امانت لکھنوی کی غزل

    رواں دواں نہیں یاں اشک چشم تر کی طرح

    رواں دواں نہیں یاں اشک چشم تر کی طرح گرہ میں رکھتے ہیں ہم آبرو گہر کی طرح سنی صفت کسی خوش چشم کی جو مردم سے خیال دوڑ گیا آنکھ پر نظر کی طرح چھپی نہ خلق خدا سے حقیقت خط شوق اڑا جہاں میں کبوتر مرا خبر کی طرح سوائے یار نہ دیکھا کچھ اور عالم میں سما گیا وہ مری آنکھ میں نظر کی طرح عدم ...

    مزید پڑھیے

    بھولا ہوں میں عالم کو سرشار اسے کہتے ہیں

    بھولا ہوں میں عالم کو سرشار اسے کہتے ہیں مستی میں نہیں غافل ہشیار اسے کہتے ہیں گیسو اسے کہتے ہیں رخسار اسے کہتے ہیں سنبل اسے کہتے ہیں گلزار اسے کہتے ہیں اک رشتۂ الفت میں گردن ہے ہزاروں کی تسبیح اسے کہتے ہیں زنار اسے کہتے ہیں محشر کا کیا وعدہ یاں شکل نہ دکھلائی اقرار اسے کہتے ...

    مزید پڑھیے

    بانی جور و جفا ہیں ستم ایجاد ہیں سب

    بانی جور و جفا ہیں ستم ایجاد ہیں سب راحت جاں کوئی دلبر نہیں جلاد ہیں سب کبھی طوبیٰ ترے قامت سے نہ ہوگا بالا باتیں کہنے کی یہ اے غیرت شمشاد ہیں سب مژہ و ابرو و چشم و نگہ و غمزہ و ناز حق جو پوچھو تو مری جان کے جلاد ہیں سب سرو کو دیکھ کے کہتا ہے دل بستۂ زلف ہم گرفتار ہیں اس باغ میں ...

    مزید پڑھیے

    الجھا دل ستم زدہ زلف بتاں سے آج

    الجھا دل ستم زدہ زلف بتاں سے آج نازل ہوئی بلا مرے سر پر کہاں سے آج تڑپوں گا ہجر یار میں ہے رات چودھویں تن چاندنی میں ہوگا مقابل کتاں سے آج دو چار رشک ماہ بھی ہم راہ چاہئیں وعدہ ہے چاندنی میں کسی مہرباں سے آج ہنگام وصل رد و بدل مجھ سے ہے عبث نکلے گا کچھ نہ کام نہیں اور ہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت

    دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت استادہ ہیں ہم باغ میں شمشاد کی صورت یاد آتی ہے بلبل پہ جو بیداد کی صورت رو دیتا ہوں میں دیکھ کے صیاد کی صورت آزاد ترے اے گل تر باغ جہاں میں بے جاہ و حشم شاد ہیں شمشاد کی صورت جو گیسوئے جاناں میں پھنسا پھر نہ چھٹا وہ ہیں قید میں پھر خوب ہے میعاد کی ...

    مزید پڑھیے

    ہیں جلوۂ تن سے در و دیوار بسنتی

    ہیں جلوۂ تن سے در و دیوار بسنتی پوشاک جو پہنے ہے مرا یار بسنتی کیا فصل بہاری نے شگوفے ہیں کھلائے معشوق ہیں پھرتے سر بازار بسنتی گیندا ہے کھلا باغ میں میدان میں سرسوں صحرا وہ بسنتی ہے یہ گل زار بسنتی اس رشک مسیحا کا جو ہو جائے اشارہ آنکھوں سے بنے نرگس بیمار بسنتی گیندوں کے ...

    مزید پڑھیے

    صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا

    صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا مرغ سحر کے بولتے ہی دم نکل گیا دامن پہ لوٹنے لگے گر گر کے طفل اشک روئے فراق میں تو دل اپنا بہل گیا دشمن بھی گر مرے تو خوشی کا نہیں محل کوئی جہاں سے آج گیا کوئی کل گیا صورت رہی نہ شکل نہ غمزہ نہ وہ ادا کیا دیکھیں اب تجھے کہ وہ نقشا بدل گیا قاصد کو اس ...

    مزید پڑھیے

    خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا

    خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا گھر عبث ہو پوچھتے مجھ خانماں برباد کا عشق قد یار میں کیا ناتوانی کا ہے زور غش مجھے آیا جو سایہ پڑ گیا شمشاد کا خود فراموشی تمہاری غیر کے کام آ گئی یاد رکھیے گا ذرا بھولے سے کہنا یاد کا خط لکھا کرتے ہیں اب وہ یک قلم مجھ کو شکست پیچ سے دل توڑتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    آغوش میں جو جلوہ گر اک نازنیں ہوا

    آغوش میں جو جلوہ گر اک نازنیں ہوا انگشتری بنا مرا تن وہ نگیں ہوا رونق فزا لحد پہ جو وہ مہ جبیں ہوا گنبد ہماری قبر کا چرخ بریں ہوا کندہ جہاں میں کوئی نہ ایسا نگیں ہوا جیسا کہ تیرا نام مرے دل نشیں ہوا روشن ہوا یہ مجھ پہ کہ فانوس میں ہے شمع ہاتھ اس کا جلوہ گر جو تہ آستیں ہوا رکھتا ...

    مزید پڑھیے

    روح کو راہ عدم میں مرا تن یاد آیا

    روح کو راہ عدم میں مرا تن یاد آیا دشت غربت میں مسافر کو وطن یاد آیا چٹکیاں دل میں مرے لینے لگا ناخن عشق گلبدن دیکھ کے اس گل کا بدن یاد آیا وہم ہی وہم میں اپنی ہوئی اوقات بسر کمر یار کو بھولے تو دہن یاد آیا برگ گل دیکھ کے آنکھوں میں ترے پھر گئے لب غنچہ چٹکا تو مجھے لطف سخن یاد ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2