درد کا کوئی انت نہیں ہے
درد کا کوئی انت نہیں ہے اس میں جیون پگھلا جائے دور گلی کے نکڑ پر زرد اداسی کا ڈیرا ہے اور لیمپ پوسٹ کی روشنی میں تنہائی کا بسیرا ہے آنگن میں جب اترے پرندے یادوں کا چوگا ختم ہوا خالی کٹورا درد بھرا تھا درد کا کوئی انت نہیں ہے
درد کا کوئی انت نہیں ہے اس میں جیون پگھلا جائے دور گلی کے نکڑ پر زرد اداسی کا ڈیرا ہے اور لیمپ پوسٹ کی روشنی میں تنہائی کا بسیرا ہے آنگن میں جب اترے پرندے یادوں کا چوگا ختم ہوا خالی کٹورا درد بھرا تھا درد کا کوئی انت نہیں ہے
صدیوں کا سفر طے کر کے وقت کے دروازے پر پہنچی تو معلوم ہوا رتجگوں کا مارا وقت دن چڑھے تک سو رہا ہے وہ جو کبھی رکا نہیں کسی کے آگے جھکا نہیں میرے آنے سے پہلے اسے نیند کیوں آ گئی ہتھیلیوں پہ دستکوں کے ہزارہا نشان ہیں اور اسے خبر نہیں شکستگی سمیٹ کر پاؤں میں باندھ لائی ہوں اب آبلوں میں ...
جو صدیاں بچھڑ چکی ہیں میں ان میں زندہ رہتی ہوں اور مجھے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی سڑکوں پر تانگے کی ٹاپوں کی صدا اب بھی سنتی ہوں جیسے محو سفر ہوں اور ہوا میرے کانوں میں کچھ راز کہتی ہے پھر کسی گاڑی کے ہارن کی صدا پر چونک جاتی ہوں میں جنگلوں کو تاراج کر کے سڑکیں بنتے دیکھتی ...
ہوا لال اینٹوں کی گلیوں سے گزرتی سیلن زدہ کوٹھریوں میں بچے جنتی ہے گھٹی گھٹی سانسیں لیتی ہوئی جب باہر نکلتی ہے تو ٹھنڈ سے کبڑی ہو چکی ہوتی ہے سیدھا چلنے کی خواہش میں اونچے نیچے رستوں پر گھوڑوں کے سموں تلے کیچڑ میں لت پت سر پٹختی اٹھنے کی کوشش کرتی ہے اور رینگتے رینگتے کسی حویلی ...
میں ایک آزاد وطن کی شہری ہوں اپنے شہر گاؤں گلیوں کھیت کھلیانوں کے سبھی رستوں کو جانتی بن دیکھے سب درختوں کو ان کی خوشبو سے پہچان سکتی ہوں اس مٹی کی قبروں میں میرے آبا کا لمس شامل ہے میں اس کی مہک اپنی روح میں محسوس کرتی ہوں میرے آنگن میں اترتے سب پرندے اسی ہوا میں سانس لیتے ہیں جس ...