Aliya Mirza

عالیہ مرزا

عالیہ مرزا کی نظم

    رت جگوں کا مارا وقت

    صدیوں کا سفر طے کر کے وقت کے دروازے پر پہنچی تو معلوم ہوا رتجگوں کا مارا وقت دن چڑھے تک سو رہا ہے وہ جو کبھی رکا نہیں کسی کے آگے جھکا نہیں میرے آنے سے پہلے اسے نیند کیوں آ گئی ہتھیلیوں پہ دستکوں کے ہزارہا نشان ہیں اور اسے خبر نہیں شکستگی سمیٹ کر پاؤں میں باندھ لائی ہوں اب آبلوں میں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے شرمندگی محسوس نہیں ہوتی

    جو صدیاں بچھڑ چکی ہیں میں ان میں زندہ رہتی ہوں اور مجھے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی سڑکوں پر تانگے کی ٹاپوں کی صدا اب بھی سنتی ہوں جیسے محو سفر ہوں اور ہوا میرے کانوں میں کچھ راز کہتی ہے پھر کسی گاڑی کے ہارن کی صدا پر چونک جاتی ہوں میں جنگلوں کو تاراج کر کے سڑکیں بنتے دیکھتی ...

    مزید پڑھیے

    سناٹا چیخ اٹھتا ہے

    ہوا لال اینٹوں کی گلیوں سے گزرتی سیلن زدہ کوٹھریوں میں بچے جنتی ہے گھٹی گھٹی سانسیں لیتی ہوئی جب باہر نکلتی ہے تو ٹھنڈ سے کبڑی ہو چکی ہوتی ہے سیدھا چلنے کی خواہش میں اونچے نیچے رستوں پر گھوڑوں کے سموں تلے کیچڑ میں لت پت سر پٹختی اٹھنے کی کوشش کرتی ہے اور رینگتے رینگتے کسی حویلی ...

    مزید پڑھیے

    شناخت

    میں ایک آزاد وطن کی شہری ہوں اپنے شہر گاؤں گلیوں کھیت کھلیانوں کے سبھی رستوں کو جانتی بن دیکھے سب درختوں کو ان کی خوشبو سے پہچان سکتی ہوں اس مٹی کی قبروں میں میرے آبا کا لمس شامل ہے میں اس کی مہک اپنی روح میں محسوس کرتی ہوں میرے آنگن میں اترتے سب پرندے اسی ہوا میں سانس لیتے ہیں جس ...

    مزید پڑھیے