غنڈہ
موت بندوق لیے پھرتی ہے گلی کوچوں میں دندناتی ہے کان میں سیٹیاں بجاتی ہے آسماں ناک پر اٹھاتی ہوئی ٹھوکروں سے زمیں اڑاتی ہوئی تختیاں غور سے پڑھتی ہے سب مکانوں کی گالیاں بکتی گزرتی ہے ہر محلے سے ریز گاری بھی چراتی ہے روز گلے سے موت بندوق لیے پھرتی ہے کوئی گھر سے نکل نہیں پاتا اس کے ...