علی عمران کی نظم

    غنڈہ

    موت بندوق لیے پھرتی ہے گلی کوچوں میں دندناتی ہے کان میں سیٹیاں بجاتی ہے آسماں ناک پر اٹھاتی ہوئی ٹھوکروں سے زمیں اڑاتی ہوئی تختیاں غور سے پڑھتی ہے سب مکانوں کی گالیاں بکتی گزرتی ہے ہر محلے سے ریز گاری بھی چراتی ہے روز گلے سے موت بندوق لیے پھرتی ہے کوئی گھر سے نکل نہیں پاتا اس کے ...

    مزید پڑھیے

    گلزار

    وہ اک لمحہ بڑا مقدس تھا وہ اک لمحہ کہ جس میں آسماں سب آیتوں کا ورد کرتے تھے ستارے ہاتھ میں لے کر جہنم کی سلگتی اور دہکتی آگ کے اوپر فرشتے اپنے اپنے پنکھوں کی بوندیں جھٹکتے تھے خدا نے ایک لمحے کو نگاہیں موند کر اپنی تسلط کی گرہ کو ڈھیلا چھوڑا تھا نظام ازل توڑا تھا وہ اک لمحہ کہ جس ...

    مزید پڑھیے

    نوستالجیا

    بیس برس وہ پرانی شرٹ نکلی ہے الماری سے میں نے تہہ کر کے اس کو الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں رکھا تھا جیسے میری بوڑھی ماں قرآن کو چوم کے رکھتی تھی تیری یادوں کے پرفیوم کے دھبے پڑے ہیں اب تک اور میں چھو کر دیکھوں تو خوشبو بھی اب تک گئی نہیں ہے وقت اس شرٹ کی آستین کا گھسا ہوا ہے بس ...

    مزید پڑھیے

    میڈ فار ایچ ادر

    تمہیں کچھ خبر ہے کہ جب میں نہیں تھا تو تب میں کہاں تھا میں اک ماس بن کر کسی سخت گھیرے میں جکڑا ہوا تھا میں خونیں اندھیروں میں لتھڑا ہوا تھا نہیں جانتا تھا کہ میں ہوں کہاں ہوں نہیں جانتا تھا کہ تم ہو کہاں ہو تمہیں کچھ خبر ہے کوئی شکل لے کر میں جنما تھا جس دن میں جنما نہیں تھا کھلی ...

    مزید پڑھیے

    الجھن

    کس سے پوچھوں میرے مالک میرے جسم سے مجھ کو اب یہ خون کی بو کیوں آتی ہے جبکہ کوئی زخم نہیں ہے گھاؤ نہیں جو دکھتا ہو پھر یہ کیسی بو ہے جو سانسوں میں رینگتی رہتی ہے کپڑوں سے چمٹی ہے میرے دروازوں سے دیواروں سے میز پہ رکھے اخباروں سے رستی ہے کیسے میں اس خون کی باسی بو سے چھٹکارا پاؤں ...

    مزید پڑھیے

    16 دسمبر آرمی پبلک اسکول پر حملہ

    میرا بچہ راہم جب اسکول سے لوٹا میں نے اس سے بستہ اپنے ہاتھ لے کر اس سے پوچھا اتنا بھاری کیوں ہے بستہ تین کتابیں لے کر تم اسکول گئے تھے اک پانی کی بوتل تھی اور لنچ بکس تھا اتنا بھاری کیوں ہے بستہ بولا بابا میں کیا بولوں روز تو یہ ہلکا ہوتا ہے آج نہ جانے بھاری کیوں ہے مجھ کو کچھ تشویش ...

    مزید پڑھیے

    ویپنس آف ماس ڈسٹرکشن

    کوئی ہے کوئی بغداد کی فریاد سنتا ہے کوئی ہوگا جسے آواز آتی ہو کسی دشمن کے ٹاپوں کی دھماکوں کی عراقی کوکھ کو یوں روندتے ہیں ٹینک دشمن کے کہ زخم خون تھوکنے لگے بغدادی بدن کے فرات و دجلہ کے پانی کو کس نے خاک کر ڈالا کہ دشمن نے مری جنت کو بھی ناپاک کر ڈالا الف لیلیٰ شہزادی کے کپڑے پھاڑ ...

    مزید پڑھیے

    سرکس

    کرتب کا بس شوق ہوا تھا میرے بس کا کام نہیں ہے کب سوچا تھا بن سوچے سمجھے میں یوں ہی چل نکلا تھا چلتے چلتے مجھ کو یہ احساس نہیں تھا چلنا یوں دشوار بھی ہو سکتا ہے اک دن خوف کوئی تلوار بھی ہو سکتا ہے اک دن میرے پاؤں کسی لمحے شل ہو سکتے ہیں آج نہیں ہوں گے شاید کل ہو سکتے ہیں کب تک اپنی ...

    مزید پڑھیے