درد کی اک لہر بل کھاتی ہے یوں دل کے قریب
درد کی اک لہر بل کھاتی ہے یوں دل کے قریب موج سرگشتہ اٹھے جس طرح ساحل کے قریب ما سوائے کار آہ و اشک کیا ہے عشق میں ہے سواد آب و آتش دیدہ و دل کے قریب درد میں ڈوبی ہوئی آتی ہے آواز جرس گریۂ گم گشتگی سنتا ہوں منزل کے قریب آرزو نایافت کی ہے سلسلہ در سلسلہ ہے نمود کرب لا حاصل بھی حاصل ...