جسم ٹوٹا ہے جان ٹوٹی ہے
جسم ٹوٹا ہے جان ٹوٹی ہے عمر بھر کی تھکان ٹوٹی ہے وہ جو پھیلا تھا کل دھواں بن کر آج اس کی اٹھان ٹوٹی ہے ایسا لگتا ہے شہر ٹوٹ گیا سب سے اونچی دکان ٹوٹی ہے کوئی دھوکا تھا کھا لیا اس نے اس کے ہاتھوں زبان ٹوٹی ہے وہ بظاہر ہے مطمئن لیکن اس کے اندر کی آن ٹوٹی ہے رقص طاری ہے سارے جنگل ...