علمدار عدم کی غزل

    جسم ٹوٹا ہے جان ٹوٹی ہے

    جسم ٹوٹا ہے جان ٹوٹی ہے عمر بھر کی تھکان ٹوٹی ہے وہ جو پھیلا تھا کل دھواں بن کر آج اس کی اٹھان ٹوٹی ہے ایسا لگتا ہے شہر ٹوٹ گیا سب سے اونچی دکان ٹوٹی ہے کوئی دھوکا تھا کھا لیا اس نے اس کے ہاتھوں زبان ٹوٹی ہے وہ بظاہر ہے مطمئن لیکن اس کے اندر کی آن ٹوٹی ہے رقص طاری ہے سارے جنگل ...

    مزید پڑھیے

    سفر اندر سفر کرتے اگر تم

    سفر اندر سفر کرتے اگر تم کہانی مختصر کرتے اگر تم ہمیں منظور تھے سارے تماشے کسی عنوان پر کرتے اگر تم سیاست مسئلہ کوئی نہیں تھا کسی کے نام پر کرتے اگر تم ہمارے رابطے کٹنے لگے ہیں کہیں پھر نامہ بر کرتے اگر تم حقیقت کھل کے آ جاتی نظر میں حقیقت پر نظر کرتے اگر تم

    مزید پڑھیے

    کیسے کیسے راز چھپانے لگتی ہیں

    کیسے کیسے راز چھپانے لگتی ہیں آنکھیں کیسے آنکھ چرانے لگتی ہیں خاموشی سے جب بھی ہم دو چار ہوئے آوازیں آواز لگانے لگتی ہیں عشق کا دریا ایسا دریا ہے جس میں امیدیں دن رات ٹھکانے لگتی ہیں جنگل تو جنگل تھے اب تو شہروں میں کیا کیا چیزیں آنکھ دکھانے لگتی ہیں مجھ کو باہر جاتے دیکھ کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2