Akbar Masoom

اکبر معصوم

اکبر معصوم کی غزل

    پس فصیل زمانوں کا انتظار نہ ہو

    پس فصیل زمانوں کا انتظار نہ ہو یہ شہر اور کسی شہر کا غبار نہ ہو یہ خواب بھی نہ کسی خواب کا اشارہ ہو یہ نیند اور کسی نیند کا خمار نہ ہو یہ دشت اور کسی دشت کا سراب سہی یہ باغ اور کسی باغ کی بہار نہ ہو بہت دنوں سے یہی سوچ کر پریشاں ہوں کہ تو بھی میرے گماں ہی کا اعتبار نہ ہو کوئی تو ...

    مزید پڑھیے

    اب بھی اکثر دھیان تمہارا آتا ہے

    اب بھی اکثر دھیان تمہارا آتا ہے دیکھو گزرا وقت دوبارہ آتا ہے آہ نہیں آتی ہے اب تو ہونٹوں تک سینے سے بس اک انگارہ آتا ہے جانے کس دنیا میں سوتی جاگتی ہیں جن آنکھوں سے خواب ہمارا آتا ہے دن بھر جنگل کی آوازیں آتی ہیں رات کو گھر میں جنگل سارا آتا ہے جن راتوں میں چاند ہو یا پھر چاند ...

    مزید پڑھیے

    خود سے نکلوں بھی تو رستہ نہیں آسان مرا

    خود سے نکلوں بھی تو رستہ نہیں آسان مرا میری سوچیں ہیں گھنی خوف ہے گنجان مرا ہے کسی اور سمے پر گزر اوقات مری دن خسارہ ہے مجھے رات ہے نقصان مرا میرا تہذیب و تمدن ہے یہ وحشت میری میرا قصہ، مری تاریخ ہے نسیان مرا میں کسی اور ہی عالم کا مکیں ہوں پیارے میرے جنگل کی طرح گھر بھی ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2