Akbar Masoom

اکبر معصوم

اکبر معصوم کی غزل

    نیند میں گنگنا رہا ہوں میں

    نیند میں گنگنا رہا ہوں میں خواب کی دھن بنا رہا ہوں میں ایک مدت سے باغ دنیا کا اپنے دل میں لگا رہا ہوں میں کیا بتاؤں تمہیں وہ شہر تھا کیا جس کی آب و ہوا رہا ہوں میں اب تجھے میرا نام یاد نہیں جب کہ تیرا پتا رہا ہوں میں آج کل تو کسی سدا کی طرح اپنے اندر سے آ رہا ہوں میں ایسا مردہ ...

    مزید پڑھیے

    سن! ہجر اور وصال کا جادو کہاں گیا

    سن! ہجر اور وصال کا جادو کہاں گیا میں تو کہیں نہیں تھا مگر تو کہاں گیا جب خیمۂ خیال میں تصویر ہے وہی وہ دشت نا مراد وہ آہو کہاں گیا بستر پہ گر رہی ہے سیہ آسماں سے راکھ وہ چاندنی کہاں ہے وہ مہ رو کہاں گیا جس کے بغیر جی نہیں سکتے تھے جا چکا پر دل سے درد آنکھ سے آنسو کہاں گیا پھر ...

    مزید پڑھیے

    خواب آرام نہیں خواب پریشانی ہے

    خواب آرام نہیں خواب پریشانی ہے میرے بستر میں اذیت کی فراوانی ہے مجھ کو تو وہ بھی ہے معلوم جو معلوم نہیں یہ سمجھ بوجھ نہیں ہے مری نادانی ہے کچھ اسے سوچنے دیتا ہی نہیں اپنے سوا میرا محبوب تو میرے لیے زندانی ہے ہے مصیبت میں گرفتار مصیبت میری جو بھی مشکل ہے وہ میرے لیے آسانی ...

    مزید پڑھیے

    یہ ساری دھول مری ہے یہ سب غبار مرا

    یہ ساری دھول مری ہے یہ سب غبار مرا گزر ہے تیرے خرابے سے بار بار مرا خزاں تو کیا نہیں جس کی بہار کو بھی خبر اک ایسے باغ کے اندر ہے برگ و بار مرا ہے دل کے نغمہ و نالہ سے اب گریز مجھے ملا ہوا ہے کسی اور لے سے تار مرا میں خوش ہوں نان و نمک پر تو اس کی داد نہ دے کہ بھیک مانگتا پھرتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    اس خوش ادا کے آئنہ خانے میں جاؤں گا

    اس خوش ادا کے آئنہ خانے میں جاؤں گا پھر لوٹ کر میں اپنے زمانے میں جاؤں گا رہ جائے گی یہ ساری کہانی یہیں دھری اک روز جب میں اپنے فسانے میں جاؤں گا یہ صبح و شام یوں ہی رہیں گے مرے چراغ بس میں تجھے جلانے بجھانے میں جاؤں گا یہ کھیل ہے تو خوب مگر تیرے ہاتھ سے اس ٹوٹنے بگڑنے بنانے میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ گل جس خاک سے لایا گیا ہے

    یہ گل جس خاک سے لایا گیا ہے اسے افلاک سے لایا گیا ہے چمن پہ رنگ آتا ہی نہیں تھا تری پوشاک سے لایا گیا ہے یہ دل جس سے میں شرمندہ بہت ہوں اسی بے باک سے لایا گیا ہے اجالا ہے جو یہ کون و مکاں میں ہماری خاک سے لایا گیا ہے یہ جو کچھ بھی ہے آیا ہے کہاں سے دل صد چاک سے لایا گیا ہے یہاں ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو اک شاخ ہے ہری تھی ابھی

    یہ جو اک شاخ ہے ہری تھی ابھی اس جگہ پر کوئی پری تھی ابھی سربسر رنگ و نور سے لبریز اک صراحی یہاں دھری تھی ابھی خاک کیسی ہے میرے پاؤں تلے سات رنگوں کی اک دری تھی ابھی اس خرابے میں کوئی اور بھی ہے آہ کس نے یہاں بھری تھی ابھی سانحہ کوئی یاں سے گزرا ہے یہ فضا کیوں ڈری ڈری تھی ...

    مزید پڑھیے

    نہ اپنا نام نہ چہرہ بدل کے آیا ہوں

    نہ اپنا نام نہ چہرہ بدل کے آیا ہوں کہ اب کی بار میں رستہ بدل کے آیا ہوں وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں ذرا بھی فرق نہ پڑتا مکاں بدلنے سے وہ بام و در وہ دریچہ بدل کے آیا ہوں مجھے خبر ہے کہ دنیا بدل نہیں سکتی اسی لیے تو میں چشمہ بدل کے آیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ سارے پھول یہ پتھر اسی سے ملتے ہیں

    یہ سارے پھول یہ پتھر اسی سے ملتے ہیں تو اے عزیز ہم اکثر اسی سے ملتے ہیں خدا گواہ کہ ان میں وہی ہلاکت ہے یہ تیغ و تیر یہ خنجر اسی سے ملتے ہیں وہ ایک بار نہیں ہے ہزار بار ہے وہ سو ہم اسی سے بچھڑ کر اسی سے ملتے ہیں بچھا ہوا ہے وہ گویا بساط کی صورت یہ سب سفید و سیہ گھر اسی سے ملتے ...

    مزید پڑھیے

    ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو

    ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو یادوں جیسی تیز ہوا ہو درد سے گہرا پانی ہو ایک ستارہ روشن ہو جو کبھی نہ بجھنے والا ہو رستہ جانا پہچانا ہو رات بہت انجانی ہو وہ اک پل جو بیت گیا اس میں ہی رہیں تو اچھا ہے کیا معلوم جو پل آئے وہ فانی ہو لافانی ہو منظر دیکھنے والا ہو پر کوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2